
مزاحمت و رومان کا شاعر احمد فراز
شیئر کریں
عصر حاضر کے ممتاز ترین رومانوی و مزاحمتی شاعر احمد فراز کی 15ویں برسی 25 /اگست 2008 کو عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ احمد فراز جدید اردو شاعری کی ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے مثال شہرت و عزت سے نوازا، عوامی مقبولیت کے لحاظ سے وہ فیض احمد فیض کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ احمد فراز 12/جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے، آپ کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔اردو اور فارسی میں ایم اے کیا، ایڈورڈ کالج (پشاور) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے، جب ان کا پہلا شعری مجموعہ "تنہا تنہا” شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے، تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچرر شپ اختیار کر لی، اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ "درد آشوب” چھپا جس کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے "آدم جی ادبی ایوارڈ” عطا کیا گیا، یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔
احمد فراز کو 1976ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا، بعدازاں فوجی حکمران جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی، احمد فراز 2006ء تک "نیشنل بک فاؤنڈیشن” کے سربراہ رہے، ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں "نیشنل بک فاؤنڈیش” کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔احمد فراز نے 1988ء میں "آدم جی ادبی ایوارڈ” اور 1990ء میں "اباسین ایوارڈ” حاصل کیا، 1988ء میں انہیں بھارت میں "فراق گورکھ پوری ایوارڈ” سے نوازا گیا، اکیڈمی آف اردو لٹریچر (کینڈا) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا، جبکہ بھارت میں انہیں 1992ء میں "ٹاٹا ایوارڈ” ملا۔انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے، ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے، جامعہ ملیہ (بھارت) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع "احمد فراز کی غزل”ہے، اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور میں بھی "احمد فراز: فن اور شخصیت”کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا، ان کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں۔احمد فراز جنہوں نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی، اپنی شاعری کے زمانہئ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی، انہوں نے فوجی آمر ضیاء الحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں، جنہیں بہت شہرت ملی، مشاعروں میں کلام پڑھنے پر انہیں فوجی حکومت نے حراست میں لینے کے احکامات جاری کیے جس کے بعد احمد فراز کو خودساختہ جلاوطنی بھی برداشت کرنا پڑی۔
2004ء میں صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں انہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا لیکن دو برس بعد انہوں نے یہ تمغہ سرکاری پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے واپس کر دیا، احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا، ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔
شہنشاہ غزل استاد مہدی حسن خان نے احمد فراز کی کئی لازوال غزلوں کو اپنی ملکوتی آواز کا سحر عطا کیا مگر جب انہوں نے "رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ”پیش کی تو پہلا مصرعہ بہت جلد عوامی حلقوں میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا، آج بھی اس کی یہ شہرت برقرار ہے۔عظیم گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں نے ان کی کئی غزلوں کو اپنی سدابہار آواز عطا کی اور یوں احمد فراز کی غزلیں ان لوگوں تک بھی پہنچ پائیں جو پڑھنا تو نہیں جانتے تھے مگر لازوال آوازوں کی سنگت سے وہ بھی احمد فراز کے مداح ہوئے، میڈم نور جہاں کی گائی احمد فراز کی غزل "سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے "برصغیر پاک و ہند کے شائقینِ غزل میں بہت مقبول غزل خیال کی جاتی ہے، عصرِ حاضر کے یہ ممتاز شاعر طویل علالت کے بعد 25 /اگست 2008ء کی رات اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔
مجموعہ کلام
۔۔۔۔
تنہا تنہا،درد آشوب،شب خون،نایافت،میرے خواب ریزہ ریزہ،بے آواز گلی کوچوں میں،نابینا شہر میں آئینہ،پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں،خواب گل پریشاں ہے، مودلک، غزل بہانہ کرو، جاناں جاناں، اے عشق جنوں پیشہ،
منتخب کلام
اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے
تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے
تم محبت میں کہاں سو د و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے
اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلہئ کُن فیکوں ہے یوں ہے
۔۔۔۔۔
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہے اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کے بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی درودیوار گھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کرکے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں