یوم آزادی اور لاپتہ خواتین کا مسئلہ
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
وزیراعظم نریندر مودی نے 77 ویں یوم آزادی کے موقع پر مسلسل دسویں بار لال قلعہ کے فصیل سے خطاب کرتے ہوئے منی پور سے متعلق کہا کہ بھارت، منی پور کے عوام کے ساتھ ہے اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ وہاں مسائل کا پرامن حل نکلے گا۔ منی پور کا تشدد سو دن سے زیادہ پرانا ہوگیا ہے اس کے باوجود وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ وہاں امن کیسے قائم ہوگا اور ریاستی و مرکزی حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کیا کررہی ہیں؟ کیونکہ محض خواہش سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ منی پور کے حوالے سے وزیر اعظم 78 دن بعد پہلی باراس وقت لب کشائی کی جب شرمناک ویڈیو پر سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ ایک تیس سیکنڈ کا پیغام دینے کے بعد عدم اعتماد کی تحریک کے جواب میں تین منٹ کا بیان اور لال قلعہ سے تین عدد جملے ۔ ان میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ منی پور سے خواتین کے وقار اور عزت پر حملے کی خبریں موصول ہوئیں ۔ اس سے پہلے انہوں نے منی پور تشدد کو کانگریس کے تحت چلنے والے صوبوں سے موازنہ کرکے ہلکا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اگر وزیر اعظم سے سوال کیا جائے کہ ملک میں خواتین کی حالت ِزار کو بہتر بنانے کے لیے ان کی سرکار کیا کررہی ہے ؟ تو جواب ملے گا یکساں سیول کوڈ لارہی ہے ۔
فی الحال عارضی طور پر سہی وہ قانون راستے میں کہیں غائب ہوگیا مگر ملک میں لاپتہ ہونے والی خواتین کے حوالے سے ایک نہایت تشویشناک رپورٹ امیت شاہ کی وزارتِ داخلہ نے ایوان کے اجلاس میں پیش کردی ۔ ایوان پارلیمان میں پیش ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ملک میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے این سی آر بی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سال 2019 ء سے 2021 ء کے تین سالوں میں ہندوستان کے اندر 13.13 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین لاپتہ ہو چکی ہیں۔ یہ رپورٹ اگر کوئی غیر ملکی ادارہ پیش کرتا تو اسے ہندوستان دشمنی کی سازش کا حصہ قرار دے کر مسترد کردیا جاتا۔ اس پر ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا ۔ کسی دیسی غیرسرکاری تنظیم نے ایسی رپورٹ شائع کرنے کی جرأت کی ہوتی تو اس پر ای ڈی کا چھاپہ پڑ جاتا اور اس پرغیر ملکیوں کے آلۂ کار کا الزام لگاکر ملک دشمن قرار دے دیا جاتا لیکن یہ چونکہ امیت شاہ کی وزارتِ داخلہ کا انکشاف ہے اس لیے مودی بھگتوں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ آخر کریں تو کریں کیا اور بولیں تو بولیں کیا ؟
وزارت داخلہ نے اس رپورٹ کو خاصی عرق ریزی سے تیار کرکے بتایا کہ لاپتہ خواتین میں 10 لاکھ 61 ہزار 648کی عمر تو 18 سال سے زیادہ ہے مگر 18 سے کم عمر والی دو لاکھ 51 ہزار 430 لڑکیاں بھی غائب ہوگئی ہیں ۔ یہ سرکاری اعدادو شمار ظاہر ہے ان خواتین کے ہیں جن سے متعلق پولیس تھانے میں شکایت درج کروائی گئی ۔ ہندوستانی معاشرے میں کئی وجوہات کی بناء پر بیشتر لوگ پولیس تھانے کا رخ نہیں کرتے ۔ اس میںسب سے بنیادی بدنامی ڈرکا ہوتا ہے ۔ لوگ نہیں چاہتے کہ ایسی باتیں ذرائع ابلاغ میں آئیں۔ آج کل اگر کوئی معاملہ پولیس تھانے پہنچتا ہے تو اس کے آس پاس کوئی موبائل بردارنامہ نگار نمودار ہوجاتا ہے ۔ وہ بغیر کسی محنت کے شکایت کنندہ ، اس کے کچھ رشتے داروں اور پولیس والوں سے چند سوالات پوچھ کر ایک ویڈیو تیار کرلیتا ہے ۔ لڑکی ہندو ہوتو وشوہندو پریشد کے رہنماکے ردعمل سے لو جہاد کا تڑکا لگوا لیتا ہے اور مسلمان ہو تو کسی مولوی صاحب سے تذکیر کروالیتا ہے ۔ اس طرح اس چینل کو تو کئی ہزار بلکہ لاکھوں ناظرین مل جاتے ہیں مگر وہ خاندان کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہتا ۔
متاثرین کی جانب سے شکایت نہیں لکھوانے کی اور بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں مثلاً پولیس تھانے کا عملہ عام طور پر بغیر دکشنا کے رپورٹ لکھنے پر راضی نہیں ہوتا ۔اس لیے متاثر خواتین کے غریب ونادار اہل خانہ بے بس ہوجاتے ہیں ۔ ذات پات بھی رکاوٹ بنتی ہے ۔ پولیس تھانیدار اور دست درازی کا ملزم اگر ایک سماج کے ہیں تو وہ شکایت کنندہ کو سمجھا بجھا کر یا ڈانٹ ڈپٹ اور دھونس دھمکی سے شکایت لکھوانے نہیں دیتا ۔ عوام کو پولیس سے کسی ٹھوس پیش رفت کی توقع نہیں ہوتی ۔ اس لیے بھی لوگ شکایت لے کر تھانے نہیں جاتے اور نتیجتاً بیشتر ایسے معاملے دب جاتے ہیں۔ کمل ناتھ کے مطابق صرف 10 فیصد متاثر خواتین شکایت کرتی ہیں بقیہ 90 فیصد و ظلم سہنے کے بعد بھی آگے نہیں آتیں۔ ان ساری مشکلات کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں شکایات کا درج ہوجانا خوفناک حالات کی سنگینی کا مظہر ہے ۔
بی جے پی اس معاملے مخالف جماعتوں کی ریاستی سرکاروں کو مودرِ الزام ٹھہرا کر اپنا دامن نہیں چھڑا سکتی کیونکہ خواتین کی گمشدگی میں سرِ فہرست مدھیہ پردیش ہے ۔ اس ریاست میں پچھلے پندرہ سالوں میں چند ماہ کے استثناء سے ڈبل انجن سرکار ہے ۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق بارہ فیصد یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار ایک سو اسی خواتین مدھیہ پردیش سے لاپتہ ہوئی ہیں۔ بی جے پی کی حکومت والی اس ریاست سے تین سال کے دوران لاپتہ ہونے والی خواتین میں اڑتیس ہزار دو سو چونتیس کی عمر 18سال سے کم ہے ۔ صوبہ مدھیہ پردیش آر ایس ایس کے صدر دفتر ناگپور سے بالکل سٹا ہوا ہے ۔ ترنمول کانگریس کے زیر اقتدار مغربی بنگال دوسرے نمبر پر ہے ۔ جہاں لاپتہ ہونے والی خواتین کی تعداد ایک لاکھ چھپن ہزار نو سو پانچ اور 18 برس سے کم عمر کی غائب ہونے والی لڑکیاں چھتیس ہزار چھ سو چھ تھی۔ اتفاق سے وہاں ایک نہایت تیز طرار خاتون وزیر اعلیٰ ہیں ۔وہ مودی اور شاہ کو انتخاب میں تو ہرا سکتی ہیں مگر خواتین کے تحفظ میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ملک میں فی الحال ایک قبائلی خاتون محترمہ دروپدی مرمو صدر مملکت ہیں ۔ان کے آبائی صوبے اوڈیشہ میں ستر ہزار دو سو بائیس خواتین اور سولہ ہزار چھ سو اننچاس لڑکیوں کے لاپتہ ہو نے کی خبر ہے ۔ صدر بننے سے قبل وہ قبائلی اکثریتی ریاست چھتیس گڑھ کی گورنر تھیں وہاں سے بھی اننچاس ہزار ایک سو سولہ خواتین اور دس ہزار آٹھ سو سترہ لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹیں درج کرائی گئی ہیں۔ خیر یہ تو معاشی طور پر غریب ریاستیں ہیں مگر اقتصادی لحاظ سے بہتر صوبہ مہاراشٹر میں بھی ایک لاکھ ستاسی ہزار چار سو خواتین اور 18برس سے کم عمر کی تیرہ ہزار تینتیس لڑکیاں لاپتہ ہوئی ہیں ۔ جموں و کشمیر جیسے کم آبادی والے صوبے میں سال 2019 سے 2021 کے درمیان نو ہزار سات سو پینسٹھ خواتین لاپتہ ہو گئیں ان میں 18برس سے کم عمرکی لڑکیوں کی تعدادایک ہزار ایک سو اڑتالیس تھی۔ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پہلے نمبر پر دہلی ہے جہاں مذکورہ مدت کے دوران اکسٹھ ہزار چوون خواتین اور 18برس سے کم عمر کی بائیس ہزار نو سو انیس لڑکیاں لاپتہ ہو ئیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل مودی جی نے نربھیا کے تناظر میں یہ نعرہ دیا تھا کہ ‘بہت ہوا ناری پر اتیاچار ، اب کی بار مودی سرکار’۔ یہ سرکاری اعدادوشمار اس کاپول کھولتے ہیں ۔
مرکزی وزارت داخلہ میں وزیر مملکت اجئے کمار مشرا کے مطابق حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے اور ان پرجنسی جرائم کو روکنے کی خاطر سن دو ہزار تیرہ میں جو قانون بنایا تھا اسے سن دو ہزار اٹھارہ میں ترمیم کرکے مزید سخت اور موثر بنایا گیا مگر اس رپورٹ نے ثابت کردیا کہ کاغذی قوانین اگر قوت نافذہ سے محروم ہوں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایوان پارلیمان کے اندر بحث کا جواب دینے والے وزیر مملکت کے اپنے علاقہ لکھیم پور کے اندر ستمبر 2022 میں پندرہ اور سترہ برس کی دو بہنوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹس نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کرنے کا انکشاف کیا ۔ پولیس نے گینگ ریپ اور قتل کے الزام میں چھ افراد کو گرفتار بھی کیا مگر آگے کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ سن 2014 میں بھی اترپردیش کے بدایوں ضلع میں دو کمسن بہنوں کو اغوا اور عصمت دری کے بعد قتل کرکے درخت سے لٹکا نے کی بھیانک یاد تازہ کردی۔سن 2020 میں بھی اترپردیش کے ہی ہاتھرس ضلع میں ایک 19سالہ دلت لڑکی کو گینگ ریپ کے بعد قتل کردیاگیا تھا ۔
ہاتھرس اور دیگر مقامات پر دلتوں کے خلاف وقوع پذیر ہونے والے اندو ہناک سانحات کے بعد احتجاج وغیرہ تو ہوتا ہے ، سخت تر قوانین بھی وضع کیے جاتے ہیں مگر مجرمین کو سزا کم ہی ملتی ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق 2021 کے اواخر تک دلت ذات کے افراد کے ساتھ ہونے والے جرائم کے تقریباً 71000 مقدمات زیر التوا تھے ۔دلت خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات اترپردیش، بہار اور راجستھان میں پیش آتے ہیں ۔ ان ریاستوں میں اکثر بی جے پی برسرِ اقتدار رہی ہے ۔ اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2015 سے 2020 کے درمیان دلت خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات میں 45 فیصد کا اضافہ ہوا ہے تاہم حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتی ہے ۔ دلت ہیومن رائٹس کی بینا پالیکل کے مطابق یوگی کے اتر پردیش میں دلتوں کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے خواتین کمیشن اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتا ۔ ہندوستان میں دلتوں کے خلاف جرائم کے لیے سخت قوانین موجودتو ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا ، یہی وجہ ہے کہ دلت خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ایسے میں مودی سرکار کا دعویٰ کہ یونیفارم سول کوڈ خواتین کو محفوظ ومامون کردے گا بالکل کھوکھلا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ آئندہ انتخاب میں پھر سے اقتدار حاصل کرنے کا ایک وسیلہ ہے ۔
٭٭٭