نگراں کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ اور شہباز شریف کی لن ترانیاں
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے متعلقہ افسران سے ملکی معاملات اور مختلف محکموں کی کارکردگی کے بارے میں بریفنگ لینے کے بعد پہلے مرحلے میں 16 رکنی نگراں کابینہ تشکیل دے دی ہے جوجلد ہی حلف اٹھائے گی تاکہ ملک کے اہم معاملات التوا کا شکار نہ ہوں اور کاریگر قسم کے سرکاری افسران اس خلا کو دیکھتے ہوئے من مانے فیصلے نہ کرسکیں، ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق نگراں وفاقی کابینہ میں ذوالفقار چیمہ، گوہر اعجاز، شعیب سڈل اور سرفراز بگٹی کے نام شامل ہیں جبکہ وزارت توانائی کے لیے محمد علی اور وزارت بین الصوبائی رابطہ کے لیے شاہد آفریدی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ تاہم ان ناموں میں عین وقت پر ردوبدل کے امکان کو ردنہیں کیاجاسکتا۔ نگران وزیرخزانہ کے لئے ڈاکٹر وقار مسعود کے نام پر غورکیاجارہا ہے۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نگراں حکومت مختصر مدت میں اپنی تمام تر توانائیاں معیشت کی اصلاح پر خرچ کرتے ہوئے ملکی معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھے گی اور اقتصادی بہتری لائے گی۔ معاشی پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھیں گے اور مزید اقتصادی بہتری لائیں گے۔ عوامی فلاحی منصوبے بلاتعطل جاری رہیں گے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے اقدامات نگران حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
دوسری طرف 16 ماہی حکومت کے دوران پاکستان کے 98 فیصد عوام کو زندہ درگورکردینے والے سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی رخصتی سے قبل قوم سے الوداعی خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ مختصر مدت میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، وقت یہ گواہی دے گا،پاکستان کو معاشی خود انحصاری کی راہ پر گامزن کردیا، ملک کے خوشحال مستقبل کیلئے چراغ روشن کرکے جارہے ہیں،ہماری حکومت نے 16ماہ میں دن رات محنت کرکے ملک کو معاشی استحکام سے ہم کنار کیا ہے۔شہباز شریف سیاسی میدان کے ایک ماہر کھلاڑی تصور کیے جاتے ہیں اپنے بڑے بھائی کے زیر سایہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے طویل عرصے تک کام کرکے انھوں نے کچھ سیکھا ہو یا نہ سیکھا صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کرنا ضرور سیکھ لیا ہے،جہاں تک الوداعی خطاب میں ان کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ انھوں نے مختصر مدت میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا،اورپاکستان کو معاشی خود انحصاری کی راہ پر گامزن کردیاہے تو اس کی حقیقت پلڈاٹ کی تازہ ترین رپورٹ پڑھ کر ہی سامنے آجاتی ہے،یہ رپورٹ خود شہباز شریف کے دور حکومت میں ہی تیار کی گئی اور ان کی رخصتی کے وقت شائع کردی گئی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ)نے اپنی اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ اپنی مدت پوری ہونے سے چند دن قبل تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی نے ملک میں جمہوریت تقریبا اتنی ہی کمزور چھوڑی، جتنی 25 جولائی 2018 کو حکومت منتخب ہونے کے وقت تھی۔پی ٹی آئی کی حکومت نے قانون سازی کے مقصد کے لیے آرڈیننس پر بہت زیادہ انحصار کیا،5سال میں قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے 75 آرڈیننسز میں سے صرف 3پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے نافذ کیے جبکہ 72 پی ٹی آئی حکومت نے نافذ کیے تھے۔ 14ویں قومی اسمبلی نے صرف 38 آرڈیننس منظور اور نافذ کیے گئے،جبکہ15ویں قومی اسمبلی کے منظور کیے گئے آرڈیننسز کی تعداد میں 97 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔15 ویں قومی اسمبلی نے 2002 سے شروع ہونے والی پچھلی تینوں اسمبلیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قوانین منظور کیے، اس قومی اسمبلی کے صرف آخری تین ہفتوں میں 73 بل منظور کیے گئے۔15ویں قومی اسمبلی میں صرف 1245 گھنٹے کام ہوا، یعنی اوسطا سالانہ 249 گھنٹے کام ہوا، جو گزشتہ اسمبلی کے مقابلے میں 21 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے جس نے سالانہ اوسطا 315 گھنٹے کام کیا تھا۔اس طرح گزشتہ 5 سال میں ہر کام کے گھنٹے کی اوسط لاگت 24 لاکھ 23 ہزار روپے فی گھنٹہ رہی،رپورٹ میں شکوہ کیاگیا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں کا ایوان میں رویہ اور حکومتی و سرکاری معاملات میں دلچسپی و قانون سازی کا علم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ معدودے چند افراد ایوان کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور حکومت من مانی کرنے لگتی ہے۔
اس رپورٹ کے باوجودوسابق وزیر اعظم شہباز شریف اس بات پر مصر ہیں کہ انھوں نے مشکل فیصلے کر کے ملک کو تباہی سے بچا لیا شہباز شریف یہ ماننے کو تیار نہیں کہ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ وہ اسے اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو تباہی سے بچا لیا ہے، تباہی اور کسے کہتے ہیں، اس کا بھی کوئی جواب ملنا چاہئے۔ آج عام پاکستانی کی زندگی مکمل طور پر تباہی سے دو چار ہو چکی ہے، بالا دست طبقوں کو کیا معلوم کہ غریبوں پر کیا قیامت گزر رہی ہے، تباہی سے بچانا یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کو زندہ رہنے کا موقع دیا جائے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ملک کو تباہی سے بچا لیا ہے اور دوسری طرف عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے تو آپ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں تباہی تو ہو چکی ہے، ایسی حکمرانی جیسی پی ڈی ایم کی حکومت کر کے گئی ہے، کوئی بھی کر سکتا تھا۔ آئی ایم ایف کی ہر شرط مان لینا، کوئی اصلاحی قدم نہ اٹھانا، ٹیکس پر ٹیکس لگانا، مہنگائی پر مہنگائی کرنا، عوام کی حالت سے بے خبر رہنا، یہ سب باتیں تو ایک عام ذہنی سطح کا حکمران بھی تخت پر بیٹھ کے کر سکتا ہے حکومت جو معیشت چھوڑ کر گئی ہے، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ چلنے کے قابل ہے۔ کیا نگران حکومت اس کی بنیاد پر عوام کو کوئی ریلیف دے سکتی ہے؟ شہباز شریف نے ملک کوکس تباہی سے بچایا اور مشکلات سے نکالا ہے، اس بارے میں کون وضاحت کرے گا، یہاں تو عوام کا بال بال مشکلات میں گھر چکا ہے، ابھی اچھی خبریں نہیں آ رہیں اور کہا جا رہا ہے نگراں حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہیں پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا،کہاجاتاہے کہ، بجلی، گیس مزید مہنگی ہوں گی۔ پی ڈی ایم کی حکومت اپنے آخری دنوں میں بجلی کے بلوں کو دوگنا کر کے چلی گئی ہے، لوگوں نے جس مشکل سے جولائی کے بل ادا کئے ہیں، اس کا حال وہی جانتے ہیں ابھی آگے مزید بل بھی آئیں گے کیونکہ گرمی کی وجہ سے ایک دو پنکھے تو ہر گھر میں چلتے ہیں۔یہ نعرہ بھی اکثر لگایا جاتا ہے، دو نہیں ایک پاکستان، یہ نعرہ بھی در حقیقت خوشحال اور امید جیسے گھسے پٹے نعروں کی ایک قسم ہے۔ حقیقت سے نظریں چرانی ہوں تو یہ نعرہ لگا دیا جاتا ہے، حالانکہ پاکستان میں اندھے کو بھی پتہ ہے کہ یہاں 2پاکستان ہیں۔ ایک غریبوں کا دوسرا بالا دست طبقے کا پاکستان ایک کیلئے قانون ہی قانون اور دوسرے کیلئے لا قانونیت ہی لاقانونیت، ایک کیلئے ساری مشکلات اور دوسرے کیلئے ساری آسائشیں۔ اس تقسیم کو مان بھی لیاجائے کہ یہ تفریق اور تقسیم ختم کرنے کیلئے اب وقت درکار ہے مگر کیا اس بات کو بھی مان لیا جائے کہ سارا ٹیکس عوام ادا کریں اور ساری مراعات اس طبقے کو ملیں جو ٹیکس نہیں دیتا۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں بالواسطہ ٹیکسوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے، جو سراسر عوام سے وصول کئے جاتے ہیں، صرف بجلی کے بل میں درجن سے زائد ایسے ٹیکس ہیں جو غریبوں پر لگنے ہی نہیں چاہئیں، مگر وہ دھڑلے سے وصول کئے جا رہے ہیں۔ جنرل سیلز ٹیکس کے نظام پر کھڑی معیشت، عوام کو ریلیف کیسے دے سکتی ہے؟ یہ اعداد و شمار سامنے آ چکے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹیکس ملک کے ملازمین دیتے ہیں، جن کی تنخواہوں سے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ باقی جتنے مالدار ہیں وہ ٹیکس ہی نہیں دیتے نہ ہی ان سے وصول کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈا گیا ہے۔ ایک اسپیشلسٹ ڈاکٹر روزانہ پانچ پانچ لاکھ روپے کماتا ہے، مگر اس کے ٹیکس گوشواروں میں اس کا ذکر نہیں ہوتا۔ پوش علاقوں میں لاکھوں ایسے افراد رہتے ہیں جن پر اصولاً ٹیکس لگنا چاہئے لیکن ان کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ نجانے مشکل فیصلے کیا ہوتے ہیں اگر ان لوگوں پر بھی ٹیکس کا نفاذ نہیں ہوتا جو ٹیکس دینے کی استطاعت رکھتے ہیں تو پھر یہ کون یقین کرے گا کہ شہباز شریف نے غریب عوام کیلئے دودھ کی نہریں بہادی ہیں۔