حکومت کے خاتمے سے قبل جوڑ توڑ
شیئر کریں
آئین کے تحت موجودہ حکومت کی رخصتی میں اب 2 ہفتے بھی نہیں رہے اور اگر وزیراعظم شہباز شریف اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے ایک دن پہلے بھی اسمبلی توڑنے کا اعلان کردیں تو آئین کے عین مطابق 90 دن یعنی 12 نومبر تک عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت کا جانا ٹھہر گیاہے، وزیراعظم شہباز شریف نے انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کرانے کا عندیہ دے کرانتخابات کے انعقاد کے بارے میں موجود غیر یقینی کی صورت حال میں اضافہ کردیاہے بلکہ اس بات کا برملا اظہار کردیاہے کہ موجودہ آئین کے مطابق وقت پر انتخابات کرانے کے حوالے سے مخلص نہیں ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات ملک میں سال رواں (2023) کے دوران ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے اور مردم شماری کے نتائج کی منظوری دینے والے ادارے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس منعقد ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانا ہوں گے،اور مجھے اس میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کو حتمی شکل دیے جانے کے فوراً بعد سی سی آئی کو بھیج دیے جائیں گے۔ غور کیاجائے تووزیر اعظم شہباز کا یہ بیان خود ان کے سابقہ دعووں سے انحراف ہے، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ الیکشن 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں گے۔مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر نئی مردم شماری کے نتائج مکمل ہو جاتے ہیں اور نوٹیفائی کر دیے جاتے ہیں تو پھر قانون کے تحت الیکشن کمیشن کو اس نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ 2017 میں بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا تھا، جب مردم شماری کا عبوری نتیجہ آگیا تھا اور کچھ لوگ سپریم کورٹ گئے کہ نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات ہوں لیکن اس وقت کی حکومت نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پرانی مردم شماری کے تحت انتخابات کروائے تھے،لیکن اب صورت حال پہلے جیسی نہیں ہے، اب ایوان کے نامکمل ہونے کے باعث آئینی ترمیم ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اب اس کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہو گا۔مشترکہ مفادات کونسل، جس میں چاروں صوبوں کے وزرا ئے اعلیٰ شامل ہوتے ہیں اور وزیر اعظم کے زیر صدارت منعقد ہوتی ہے، میں ڈیجیٹل مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہو گا اور اگر یہ ممکن نہ ہوا تو الیکشن کمیشن پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کرانے کا مجاز ہے۔اگر نوٹیفکیشن ہو جاتا تو نئی حلقہ بندیوں پر 4 ماہ کا عرصہ لگے گا س طرح الیکشن میں تاخیر کاجواز پیداہوجائے گا۔
پاکستان کے آئین کو جہاں سے بھی پرکھا اور پڑھا جائے یہ معاملہ سیدھا سیدھا ہے کہ حکومت کی رخصتی کے بعد وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف کی مشاورت سے آنے والے نگران وزیراعظم 90 روز میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا کر اقتدار نئی حکومت کے سپرد کر دیں گے۔لیکن اس کے باوجود حکومت کے بااثر وزرا ء اور خود وزیراعظم شہباز شریف نے ایسی باتیں شروع کردی ہیں جن کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کی پیشگوئی کرنے والوں کی قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے اور ایک دفعہ پھر یہ سوال زیر بحث آنے لگاہے کہ کیا ایک لمبے عرصے کی نگران حکومت لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ نوازشریف کی رضامندی کے بغیر ناممکن ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معیشت پر دسترس رکھنے والے اسحاق ڈار نوازشریف کے سب سے زیادہ بااعتماد اور انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر جواب تلاش کر نابہت مشکل نہیں ہے۔ان تمام حقائق کے پیش نظریہ واضح ہوتاہے کہ ابھی بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نگران وزارت عظمیٰ کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہو جائیں گے؟اس کا سیدھا سیدھا جواب یہ ہے کہ ’آئین یہی کہتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔لیکن تمام ہی اہم اسٹیک ہولڈرز اس بارے میں تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں اوربیشتر اپنی نجی گفتگو میں یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ عام انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہی ہوں گے۔مردم شماری اور حلقہ بندیاں اور پھر ان پر اعتراضات ایسے معاملات ہیں جس سے عام انتخابات میں کم از کم 8 ہفتے کی تاخیر ہو سکتی ہے یعنی عام انتخابات اگلے برس فروری یا اس کے فوراً بعد تک جا سکتے ہیں۔
اب جبکہ موجودہ عبوری حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے اور کسی بھی دن اسمبلیوں کے خاتمے کا اعلان ہوجائے گا اس کے ساتھ ہی نگراں حکومت کو اقتدار سنبھال لینا چاہئے لیکن نگراں حکومت کے بارے میں جو باتیں سننے میں آرہی ہیں ان سے حکمرانوں کی اقتدار کی بھوک کا پتہ چلتا ہے اور یہ قیاس آرائیاں درست معلوم ہوتی ہیں کہ نگراں سیٹ اپ طویل عرصے کے لیے لایا جارہا ہے۔ پہلے اسحق ڈار کا نام چلایا گیا اس پر ردعمل دیکھا گیا۔پھر خاموشی ہوئی اس کے بعد اچانک کہیں سے ڈوری ہلائی گئی اور اعتراض اختلاف وغیرہ کرنے والے سب ایک ہوگئے اور راتوں رات بلکہ ایک گھنٹے میں نگراں حکومت کے اختیارات انتخابی قوانین سمیت 29 بل منظور کرلیے گئے۔ اب یہ خبر شدمد کے ساتھ پھیلائی جارہی ہے کہ انتخابات مارچ تک جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف جے یو آئی کے ایک رہنما حافظ حمد اللہ کہتے ہیں کہ نگراں سیٹ اپ کے لیے ن لیگ سے بات چیت شروع ہوگئی ہے۔ ان کے اس بیان سے معلوم ہوتاہے کہ اتحادی پارٹیوں کے درمیان بندر بانٹ شروع ہوگئی ہے، حکومت اپنے آخری دنوں میں جتنی تیزی سے کام کر رہی ہے، قانون سازی کی جا رہی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں تاہم کچھ ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت اس اسمبلی کی مدت کے دوران چند ایسے فیصلے بھی کرنا چاہتی ہے جو سیاسی حوالے سے متنازع فیصلے کہلائیں گے۔ بہتر ہوگا ان کاموں میں نہ پڑا جائے اور ایسی روایات قائم نہ کی جائیں جو آگے چل کر خود جمہوری قوتوں کے لئے مشکلات کا باعث بن جائیں۔ انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کا تقاضا یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ان میں حصہ لینے کا یکساں موقع دیا جائے، تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اسے انتخابات سے باہر کر کے انتخابی عمل کی شفافیت کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہو گی کہ صرف اس ڈر سے کہ تحریک انصاف کہیں انتخابات میں اکثریت ہی نہ حاصل کر لے،ا نتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے جائیں۔ ملک میں سیاسی استحکام صرف اسی صورت میں آ سکتا ہے کہ انتخابات بروقت کرا کے اقتدار نئی منتخب حکومت کو سونپ دیا جائے، اس بار جب انتخابات ہوں گے تو دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر لگی ہوں گی، غیر ملکی مبصرین اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستان میں ہو گی ان کی موجودگی میں اگر الیکشن کی شفافیت برقرار نہ رکھی گئی تو بڑے سوالیہ نشانات لگ جائیں گے، مسلم لیگ (ن) کا معاملہ بظاہر یہ نظرآتا ہے کہ وہ نوازشریف کے بغیر انتخابات میں نہیں جانا چاہتی نوازشریف کو واپس لانے کیلئے حکومت کی اب تک کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوسکیں، جب ملک میں شہباز شریف یعنی نواز شریف کے چھوٹے بھائی کی حکومت ہے اور وہ نواز شریف کی واپسی کو یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی توپھر ایک نگران سیٹ اپ میں نوازشریف کیلئے راہ کیسے ہموار کی جاسکے گی، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) بظاہر تحریک انصاف کی موجودگی سے خوفزدہ نظر آتی ہے گزشتہ 16 ماہ کی حکومت نے جس جماعت کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ مسلم لیگ (ن) ہے، خود لاہور کے اندر اس کی مقبولیت پر منفی اثر پڑا ہے، ایسے میں اس کے پاس بچنے کیلئے کچھ بھی نہیں سوائے نوازشریف کے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں جانا ہے تو پھر نوازشریف کو پاکستان لانا ہوگا۔ بہر حال یہ سیاسی معاملات جس طرح بھی چلیں البتہ اس معاملے پر سبھی سیاسی قوتوں کو متحد ہو جانا چاہئے کہ انتخابات وقت پر کرائے جائیں اور ان کی شفافیت پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس وقت جبکہ حکومت میں شامل ہر چھوٹی بڑی پارٹی حکومت کے خاتمے سے پہلے اپنے مفادات کے تحفظ کی ضمانت مانگ رہی ہے اور حکمراں جماعتوں میں ایک بندر بانٹ جاری ہے، اس ماحول میں ایک غیر جانبدار نگراں حکومت کیسے آسکتی ہے۔ ظاہر ہے حکومت میں شامل تمام جماعتیں اپنے کاموں کو تحفظ اور تسلسل دینے کے لیے ایسے نگراں سیٹ اپ کی کوشش کریں گی جو معاملات کو جوں کا توں رکھ کرموجودہ حکمراں اتحاد کو انتخابات جیتنے میں مدد فراہم کرسکے۔ اس سے حکمرانوں کا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے دعووں اور عوام اور ملک کے ساتھ ان کے خلوص کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس صورت حال سے پی ٹی آئی کے ان دعووں کو تقویت ملتی ہے کہ یہ لوگ صرف اس کے خوف سے الیکشن سے دور بھاگ رہے ہیں۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ قوم جو کچھ چاہتی ہے حکمراں اور مقتدر طبقات وہ نہیں ہونے دینا چاہتے۔ معاملہ صرف پی ٹی آئی کے حامیوں کو ان کے حق سے محروم کرنے کا نہیں ہے۔ سوال مینڈیٹ پر ڈاکے کا ہے جس کی بظاہر تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔