صنعتوں کی زبوں حالی پر کون توجہ دے گا؟
شیئر کریں
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز کراچ کا دورہ کیا، چند روز پیشتر بھی اُن کے قدم مبارک نے کراچی کی سرزمین کو چھوا تھا۔تب کراچی میں صنعت کاروں سے خطاب کے دوران یہ تسلیم کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا لیکن انھوں نے یہ تسلیم کرنے کے باوجود صنعتوں کو کسی طرح کی رعایت دینے کا کوئی اعلان نہیں کیا بلکہ صنعت کاروں کو بات چیت کیلئے اسلام آباد آنے کی دعوت دی، اس دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ پیٹرول کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافے کی خبروں نے تاجر برادری سمیت عوام کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا کراچی اس ملک کا حصہ نہیں ہے اور کیا کراچی میں وہ بات چیت نہیں ہوسکتی جو اسلام آباد میں ہوسکتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم معاملات کو کوئی حل نکالنے کیلئے صنعت کاروں کو اسلام آباد یاترا پر مجبور کرنا چاہتے ہیں؟وزیراعظم کی اس پیش کش یا دعوت سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وزیر اعظم مسئلے کا کوئی نکالنے کے بجائے ٹالنا چاہتے ہیں کیونکہ وزیراعظم کے مشورے کیلئے بات چیت کیلئے اسلام آباد کی یاترا وقت اورپیسے کے زیاں کے سوا کچھ نہیں ہے، جہاں تک بجلی کے نرخ میں اضافے کا تعلق ہے تو خود وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ اضافہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول سے متعلق معاہدے کے تحت کیا گیا ہے،اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب بجلی کے نرخ میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق کیا گیا ہے تو صنعت کار اسلام آباد کیا جنیوا پہنچ جائیں تو بھی حکومت بجلی سستی کرنے یا اس حوالے سے صنعت کاروں کو کوئی سہولت نہیں دے سکتی کیونکہ ایسا کرنا آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی اور اس پاداش میں آئی ایم ایف قرض کی اگلی قسط روکنے کا مجاز ہوگا، اصل صورت حال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو جاتے جاتے آئی ایم ایف کا قرضہ تو نصیب ہو گیا مگر لگتا ہے پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے یہاں مستقل قدم جماتے ہوئے پاکستان یا پاکستانیوں کو سیدھا کرنے کی بھی ٹھان لی ہے۔ ابھی قرض کی پہلی قسط(1.2ارب ڈالر) ہی ملی ہے کہ آئی ایم ایف نے نئے عام انتخابات سے پہلے بڑی یقین دہانی حاصل کرلی کہ ڈالر کے اوپن اور انٹر بینک ریٹ میں 1.25 فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا۔پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا گیا ہے۔پاکستان نے آئی ایم ایف سے تنخواہوں اور پنشن اخراجات کم کرنے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے لیے طے پانے والی مزید اہم شرائط کے مطابق منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف فیٹف شرائط پر عملدرآمد کا عزم کیا گیا ہے۔اس حوالے سے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے الیکٹرانک ایسیٹ ڈکلیئریشن سسٹم قائم کر دیا گیا ہے۔ گریڈ 17 سے 22 کے افسران بیرونی اثاثے نہیں چھپا سکیں گے۔آئی ایم ایف دستاویز کے مطابق بینکوں سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات تک رسائی ہوگی، اس حوالے سے تمام بینکس ایف بی آرکو فیڈ بیک دینے کے پابند ہوں گے۔دستاویز کے مطابق منتخب یا غیر منتخب عوامی نمائندوں کے سالانہ اثاثوں کی ڈکلیئریشن کو عام کیا جائے گا، سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ سرکاری اداروں کی کارکردگی رپورٹ جاری کرے گا۔دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غریب ترین طبقے کو مہنگائی کے حساب سے ریلیف دینے کا عزم کیا گیا ہے، توانائی کے شعبے میں بنیادی ٹیرف میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہو چکاہے۔آئی ایم ایف کو ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبے میں خامیاں دور کرنے اور ایکسچینج ریٹ مارکیٹ میں مداخلت یا کوئی پابندی نہ لگانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔آئی ایم ایف نے دعویٰ کیاہے کہ اس نے پاکستان میں نئے عام انتخابات سے پہلے بڑی یقین بھی دہانی حاصل کرلی ہے اور ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے نئے قرض معاہدے پر عمل درآمد کی تحریری یقین دہانی کرائی ہے۔آئی ایم ایف دستاویز کے مطابق بڑی سیاسی جماعتوں نے پروگرام کے مقاصد اور پالیسیوں کی حمایت کردی ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ میکرو اکنامک استحکام کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔اس معاہدے سے آنے والے مہینوں میں بیرونی فنانسنگ کے حصول کے لیے مدد ملے گی۔ ایستھر میڈم نے عندیہ دیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت حکومت نے اب گیس کی قیمتیں دوگنی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جبکہ بجلی کی قیمت میں 5روپے فی یونٹ تک کا اضافہ کردیا گیا ہے، آخری خبریں آنے تک آئی ایم ایف نے ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کا پلان بھی مانگ لیا ہے، ایف بی آر پلان آئی ایم ایف نے منظور کر لیا تو منی بجٹ آسکتا ہے۔ لیکن ان تمام مشکلات سے بے خبر وزیر اعظم شہباز شریف الیکشن مہم کی خاطر 80ارب روپے کے لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں، بظاہر یہ تقسیم بالکل ویسی ہی ہے جیسی رمضان میں 60ارب روپے کا آٹا تقسیم ہوا تھا تو اُن کی اپنی ہی جماعت نے کہہ دیا تھا کہ 20ارب روپے کی خورد برد کی گئی ہے۔لیکن فی الوقت دن میں وزیر اعظم 3-3 مرتبہ مختلف پراجیکٹس کا یا تو افتتاح کرتے نظر آرہے ہیں یا پہلے سے جاری پراجیکٹس کے دورے کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اُن کی حکومت کے اس وقت آخری 2-3 ہفتے چل رہے ہیں، اُنہیں معلوم ہے کہ اس وقت مقابلہ سخت ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ان کی حکومت نے عوام کا جو حال کیا ہے یہ اُسے عوام کے ذہنوں سے کھرچ کر موجودہ حکومت کو عوام دوست ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ سوچنے کوتیار نظر نہیں آتے کہ اگر آئی ایم ایف نے پیسے دے ہی دیے ہیں تو اُن کا صحیح استعمال کیا جائے، اس کے استعمال سے لیپ ٹاپ بانٹنے، یا غیر ضروری پراجیکٹس کی فزی بلٹی بنوا کر رقوم ضائع کرنے سے تو بہتر ہے کہ ا سمال انڈسٹری کو فروغ دے کر ملک کی درآمدات کو بہتر بنا نے پرتوجہ دی جائے۔ برآمدات بڑھیں گی تو زرمبادلہ آسکتا ہے جو اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔ورنہ ہم پر دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ لیکن انہیں اس سے کوئی غرض معلوم نہیں ہوتی؟ انہیں توغالباً اس بات کااندازہ ہوچکاہے کہ انھیں اگلے ایک دو ہفتوں میں اب ہمیشہ کیلئے چلے جانا ہے۔اس لئے انہیں اس سے کوئی غرض معلوم نہیں ہوتی کہ اس وقت انڈسٹری کی کیا صورتحال ہے؟ زیادہ پیچھے نہ جائیں صرف مالی سال 2023 کو دیکھ لیں، کہ کس طرح ہماری انڈسٹری مسلسل تنزلی کا شکار رہی۔ حتیٰ کہ کلیدی برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کی پیداوار بھی اتنی زیادہ تنزلی کا شکار رہی کہ ان کی ایسوسی ایشن کوحکومت کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کرنے کیلئے اخبارا ور ٹی وی پر بڑے بڑے اشتہارات شائع کرانا پڑے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں کمی ہونے کی وجہ سے ان صنعتوں سے وابستہ لاکھوں افراد کو روزگار سے ہاتھ بھی دھونا پڑرپا ہے۔ رواں سال مئی میں صنعتی پیداوار میں اطلاعات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر 14فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اپریل میں یہ کمی 21فیصدتھی، مارچ میں 25فیصد، فروری میں 11.6فیصد، جنوری میں 7.9 فیصد،دسمبر 2022ء میں 3.51 فیصد، نومبر میں 5.49فیصد‘ اکتوبر میں 7.7فیصد اور ستمبر میں 2.27 فیصد رہی جبکہ اگست میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 0.30 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا
پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں معیشت کا جو بُرا حال ہوا ہے۔ موجودہ حکمران اسے ماننے کو تیار نہیں، اُن کی ضد یہ ہے کہ عوام تسلیم کریں اس عرصے میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے اور ملک خوشحالی کے راستے پر چل نکلا ہے، حالانکہ جتنی کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا گیا ہے، اُن کی وجہ سے اگلے کئی سال تک عوام کو خوشحالی کے خواب دیکھنا بھی چھوڑ دینے چاہئیں۔ یہ معاہدہ ختم ہوگا تو ملک معاشی لحاظ سے اتنا نیچے جا چکا ہو گا کہ اگلی حکومت جو کوئی بھی ہوگی، اسی طرح آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑ رہی ہو گی اور اس سے بھی زیادہ کڑی شرائط پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گی۔ مہنگائی سے نجات کی کوئی صورت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ ایسی حقیقت ہے وزیراعظم کو جسے تسلیم کر لینا چاہیے مگر وہ تو عمران خان کو انتخابی میدان سے ہٹانے اور نواز شریف کو ایک دفعہ پھر عوام پر مسلط کرنے کیلئے ہر حد پار کرنے کو تیار نظر آرہے ہیں،کچھ ہفتوں بعد جب الیکشن کا اعلان ہوگا تو سبھی جماعتیں یہ نعرہ لگا کر میدان میں آجائیں گی کہ ہم مہنگائی کو کم کریں گے، عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی لائیں گے، اشیائے خوردونوش کو عوام کی قوت خرید کی پہنچ میں لا کر غریبوں کی پریشانیاں دور کر دیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کویہ ضرور سوچنا چاہئے کہ جس ملک کے حکمران معاملہ فہم نہ ہوں وہ ملک خواہ جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ، کبھی ترقی نہیں کرتے۔ 75سالوں میں اگر ان حکمرانوں میں ایک نے بھی محض کرپشن پر قابو پانے اور انصاف کے فروغ کے لیے کام کیا ہوتا تو آج ملک کی تقدیر بدل چکی ہوتی، یقین مانیں دنیا میں ان ملکوں نے بھی ترقی کی ہے جہاں جمہوریت نہیں تھی لیکن دو باتیں ضرور تھیں‘ اول انصاف یعنی کرپشن کا خاتمہ اور دوسرا جدید تعلیم۔یونان میں کشتی ڈوبنے کے سانحہ کے بعد بھی زیر اعظم کو شاید اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ اُن کے دور میں بیروزگاری کی سطح اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ لوگ بیرون ملک جاکر معمولی ملازمتیں کرنے کیلئے اپنی جان داؤ پر لگانے کو بھی تیار ہورہے ہیں، 12لاکھ ماہر ڈاکٹر، انجینئر، کمپیوٹر ایکسپرٹ وغیرہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں، جبکہ اس کے برعکس بھارت دنیا بھر سے چن چن کر سائنسدانوں، کمپیوٹر ایکسپرٹس، ڈاکٹرز، انجینئرز وغیرہ کو اپنے ملک میں نوکریاں دے رہا ہے، وہ ٹیکنالوجی میں ہم سے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ چاند پر چندریان تھری بھیج چکاہے۔وزیراعظم شہباز شریف کو ایوان وزیراعظم خالی کرنے سے پہلے یہ بھی چیک کر لینا چاہئے کہ اس وقت دنیا کی کتنی ہی بڑی کمپنیوں کے سربراہ بھارتی ہیں، بھارت کا حیدرآباد اس وقت دنیا کا آئی ٹی مرکز بنا چکا ہے۔ جہاں گوگل فیس بک سمیت دنیا کی بڑی آئی ٹی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ کسی گھر کو قرضہ ملنے کی صورت میں اسے آپس میں تقسیم کرنے کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسے کہاں لگایا جائے کہ آمدنی ہو، اور اُس آمدنی سے گھر کے اخراجات بھی چلائے جائیں اور مستقبل میں قرض کی واپسی بھی کی جائے۔لیکن یہ باتیں اُس وقت بے معنی معلوم ہوتی ہیں،کیونکہ حکمران کسی چیز کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ چین نے زرعی شعبے میں پیداواری صلاحیت، اور تکنیکی ترقی کیلئے بھی کئی اقدامات کئے ہیں۔ پھر چین نے انتہائی اہم صنعتوں میں جدت اور تکنیکی ترقی کو آگے بڑھانے کیلئے قومی سطح پر انجینئرنگ کے تحقیقی مراکز قائم کر دیئے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کا حال یہ ہے کہ حکمراں آج تک بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بھی بحال نہیں کر پائے۔ اور تو اور ان پاکستانیوں کے لیے انصاف کا حصول ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اس وقت قرضہ ملنے کے بعد کے پاکستان کو دیکھیں تو یہ باہر سے ہرا بھرامگر اندر سے انتہا کا تنہا ملک نظر آرہا ہے۔