زکوٰة کی فرضیت و اہمیت
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
زکواة اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، جس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ اس کے لغوی معنی پاکیزہ کرنا یا پروان چڑھانا ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد غریبوں کی مدد، معاشرتی فلاح و بہبود میں صاحب ثروت لوگوں کا حصہ ملانا اور مستحق لوگوں تک زندگی گزارنے کا سامان بہم پہنچانا ہے۔پاکیزگی سے مراد اللہ تعالٰی نے ہمارے مال و دولت میں جو حق مقرر کیا ہے اس کو خلوص دل اور رضامندی سے ادا کیا جائے۔ نشو و نما سے مراد حق داروں پر مال خرچ کرنا اپنی دولت کو بڑھانا ہے، جس سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔دینی اصطلاح میں زکواة ایسی مالی عبادت ہے جو ہر صاحب نصاب مسلمان پر اپنے مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی پرسینٹ نکالنا فرض ہے۔ اور اسے نادار، غریب، یتیم اور مستحقین کو ادا کیا جائے۔
قلم کاروان(اسلام آباد)کی ادبی نشست میں واقعات سیرة النبیۖ ماہ محرم الحرام کے حوالے سے”نفاذزکواة”کے عنوان سے پروفیسرعلی اصغرسلیمی نے اپنے خطاب میں کہاکہ دورنبویۖ میں نظام زکوة ریاست کے لیے نشونماکاباعث تھااوراب صرف خیرات بن کررہ گیاہے جو امام غزالی سے دورجمود شروع ہواجس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ زکواة سماج کوغربت,جہالت,بے روزگاری,بیماری اور بدعنوانی سے پاکیزہ کرتاہے۔ فقہ الزکواة اس قدر جامعیت کے ساتھ مرتب کی گئی ہے کہ اب اس میں اجتہادکی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ زکواة کے بارے میں زیورات کی بابت خواتین میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دورکرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآنِ مجیدمیں 82مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰة کا بھی تذکرہ فرمایا ہے جس سے بدیہی طور پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ نماز اور زکوٰة لازم و ملزوم ہیں اور ان دونوں کے درمیان انتہائی اتصال وارتباط ہے۔نظامِ صلوٰة اور نظامِ زکوٰة کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اس نکتہ کو ذہن نشین کرنے کے لئے کہ اسلامی نظام کے نفاذ سے اچھائیوں کا فروغ اور برائیوں کا سدّ باب کس طرح ممکن ہے۔
اسلام کے روحانی نظام کے نافذ کرنے سے نیکیوں کو فروغ ملتا ہے جب کہ اس کے اقتصادی نظام کا نفاذ برائیوں کو جڑ سے کاٹنے کا موجب بنتا ہے اگر اسلام کا اقتصادی نظام مفقود ہو تو غیر متوازن معیشت کے مضر اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوں گے اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جانے کی وجہ سے ارتکازِ زر کا رجحان فروغ پذیر ہوگا جس سے معاشرے میں برائیاں جنم لینے لگیں گی اور ایسی راہیں کھل جائیں گی جو فسق و فجور کی زندگی پر منتج ہونگی۔بندہ و خالق کے مابین تعلق عبودیت پیدا کر دینا اسلام کا اولین تقاضا ہے جو انسانی زندگی میں روحانی نظام کے نفاذ کو مستلزم ہے، اس لئے کہ جب تک انسانوں کے اندر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت، للّٰہیت اور اخلاص کی بناء پر تعلق پیدا نہیں ہوگا ان میں ایثار و قربانی کی زندگی اپنانے کا محرک (Motive) اور میلانِ طبع ناپید رہے گا۔ روحانیت کا مطمع نظر یہ ہے کہ بندے کا اپنے مولا سے تعلق اتنا پختہ اور محکم ہو جائے کہ اس کی زندگی کا محور اس کی رضا کا حصول بن کر رہ جائے۔ جب یہ مقصد ہمہ وقت بندے کے پیشِ نظر رہے تو پھر وہ اپنی ذہنی تسکین اور مادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے بے لگام نہیں ہوگا۔ اس کے رگ و پے میں روحانیت کی دوڑتی ہوئی لہر اس کے قدم غلط راستوں کی طرف جانے سے روک دے گی اور رضائے خدا وندی کے تابع ہونے کے بعد وہ اپنی دولت غلط کاموں پر خرچ نہیں کرے گا۔ یہی سبب تھا کہ اسلام نے سب سے پہلے روحانی ضرورتوں کی بات کی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل کو اولیت دی تاکہ انسان صحیح معنوں میں انسانیت کے منصب پر فائز ہو جائے اور اس کے پاس دولت کی بہتات کہیں اسے فرعون و قارون کے مقام پر نہ گرا دے۔ فرعون و قارون دونوں ایسے بے خدا نظام کے علمبر دار تھے جس کی اساس تعلق باہم کا فقدان اور مادی دولت و قوت کی کثرت تھی۔تمام علمائے اسلام کا اجماع واتفاق ہے کہ زکوٰة ارکانِ اسلام میں سے اہم ترین رکن ہے۔ جس نے اس کی فر ضیت کا انکار کیا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور جس نے اسے ادا نہ کیا، وہ فاسق ٹھہرا اور اس سے جنگ کرنا حاکم وقت پر واجب ہے۔
قرآن پاک میں ہے ”اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ ( زکوٰة ادا ) نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبردے دو کہ جس دن اس خزانے کو آتشِ دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی( اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو”۔
٭٭٭