اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ،چیف سیکورٹی آفیسر ،ڈین معصوم طالبات کو بلیک میل کرنے لگے
شیئر کریں
( جوہر مجید شاہ) اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سیکورٹی آفیسر کے موبائل سے لگ بھگ 5 ہزار 5 سو طالبات کی نازیبا تصاویر کا برآمد ہونا المیہ ہے اتنی کثیر تعداد کا فگر ملک کی 25 کروڑ عوام کیلے کسی سانحے اور المیے سے کم نہیں ایک اسلامی ریاست میں اس قسم کا واقعہ پیش آنا ہمارے نظام تعلیم جمہوریت اور معاشرتی طرز عمل کی قلعی کھول دینے کیلئے کافی ہئے اس فرسودہ نظام اور اسکے سرپرستوں کی پول پٹی کھولنے کیلے یہ واقعہ نہ صرف کافی بلکہ مقام عبرت بھی ہے دوسری طرف واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے نفس آئے روز اس قسم کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جس کی تفتیش اور ملزم کی شناخت و گرفتاری کیلے پولیس چھاپے مار رہی ہئے مگر تاحال ملزم قانون کہ پہنچ سے دور ہئے ہمارے معاشرے میں ایسے کردار جابجا موجود ہیں بلکہ بعض ایسے کردار جن سے عوام بخوبی واقف ہیں ہمارے سسٹم میں کلیدی عہدوں پر فائض ہیں ہمیں واپس اپنی شاندار درخشندہ و تابندہ روایات کی طرف پلٹنا ہوگا اور ایسے شیطان نما انسانوں کو سخت ترین سزا کیساتھ نشان عبرت بنانا ہوگا حیرت انگیز بات یہ ہئے کہ یونیورسٹی جہاں ایک جامع نظام تعلیم کا سلسلہ ہوتا ہئے جس میں تمام تر شعبہ جات کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں جبکہ یونیورسٹی میں مختلف ذہنیت کے حامل اساتذہ کرام طلبہ و طالبات کی زہن سازی کردار سازی کیساتھ انھیں صحیح اور غلط کی تمیز بھی سکھاتے ہیں طلبہ و طالبات جو کہ معمار ملت و قوم ہیں جو کہ ہمارا آج اور کل ہیں انکی تعلیم و تربیت اور زین و کردار سازی انھیں اساتذہ کرام کے اولین فرائض منصبی کا حصہ ہوتے ہیں یونیورسٹی جہاں نہ صرف وائس چانسلر مختلف فیکلٹی کے ڈین پوری انتظامیہ اور مشیر طلبہ سمیت کئی طلبہ تنظیموں کے نمایندے بھی سرگرم ہوتے ہیں اتنا بڑا افسوسناک پہلو جو رپورٹ ہوا جس میں بتایا جارہا ہئے کہ 5 ہزار 5 سو طالبات کی نازیبا تصاویر چیف سیکورٹی آفیسر جسکی زمہ داری تھی کہ وہ ان بہن بیٹیوں پر آنچ آنے سے قبل انکی عزت آبرو جان کی حفاظت کیلے اپنی جان داؤ پر لگا دیتا جیسا کہ ( APS ) کی پرنسپل جو کہ دہشت گردوں کے حملے سے بچ کر اسکول سے باہر آگئی تھی مگر شہید پرنسپل نے اپنے بچوں کو دہشت گردوں کے حوالے کرنا گوارا نہ کیا جبکہ انکے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں تھا وہ دلیر خاتون نہتی انکے بیچ میں پہنچ گئی اورجام شہادت نوش کیا مگر ادھر تو رہبر ہی رہزن نکلا دوسرے واقعے میں ایک دوسرے شعبہ کے ھیڈ آف ڈپارٹمنٹ کے موبائل سے 7 ہزار 5 سو طالبات کی نازیبا وڈیو برآمد ہونا استاد محترم کے مقدس رشتے کو ہی پامال کرڈالا ایک ہی یونیورسٹی سے 2 واقعات رپورٹ ہونا انتہائی افسوناک اور فکر انگیز پہلو ہئے جبکہ اس طرز عمل نے پوری یونیورسٹی کی انتظامیہ اور عملے کے کردار کو مشکوک بنادیا اور ان پر سوالات اٹھا دئیے ہیں ادھر بتایا جارہا ہئے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا چیف سیکورٹی آفیسر نشے کی حالت میں گاڑی چلا رہا تھا جبکہ اس دوران اسکے ہمراہ جس یونیورسٹی میں یہ چیف سیکورٹی آفیسر ہے یونیورسٹی کی ایک طالبہ ساتھ بیٹھی تھی اسے قانون نافذ کرنے والوں نے دھر لیا کہا جارہا ہئے مزکورہ سیکورٹی گارڈ طالبات سے کمپنی دینے کا کہتا اور اسکے عوض اچھے نمبرز اور پاس کرانے کی گارنٹی فراہم کرتا ورنہ فیل کرانے کی دھمکی دیتا سیکورٹی آفیسر اور بے حیاء اساتزہ کا گٹھ جوڑ بالکل واضح ہئے معصوم طالبات کو بلیک میل کرکے یہ شیطان اپنے غیر شرعی مقاصد پورے کرتا ایسے بدقماش عناصر کے خلاف سخت ایکشن پوری قوم کا مطالبہ ہئے انکے خلاف حکومت فوری طور پر ایک ( JIT ) جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم تشکیل دے جبکہ اس واقعے پر سپریم کورٹ فوری طور پر سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ وائس چانسلر سمیت دیگر کلیدی عہدوں پر فائز عملے کو بلاتے ہوئے مکمل تحقیقات کے بعد سخت ترین سزائیں سنائی جائے تاکہ آیندہ کسی کو ایسی حرکت کی ہمت نہ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے۔