میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دوستی میں قومی مفاد کی قربانی

دوستی میں قومی مفاد کی قربانی

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۰ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی
ملک پرقرضوں کا بڑھتا بوجھ اطوار میں تبدیلی کا متقاضی ہے لیکن مسندِ اقتدارپرجلوہ افروز قیادت کے معمولات سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتاجس سے پتہ چلے کہ اُنھیں بھی نازک صورتحال کاکچھ احساس ہے۔ ہراِدارے میں شاہ خرچیاں عروج پرہیں صنعتوں کی بحالی کے بلندوبانگ دعوئوں کے باوجود نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ برقرارہے بلکہ آٹے اور چینی کا بحران جنم لینے لگاہے مگرکمائی کا ذریعہ بجلی کے نرخ بڑھانا سمجھ لیا گیاہے حالانکہ ایسے فیصلے نفرت کا موجب بنتے ہیں لیکن شاید حکمران جماعت کو اِس کا احساس نہیں اگرہوتاتو پارلیمنٹ اتنی بے حس نہ ہوتی۔ موجودہ فرسودہ پالیسیوں کے ساتھ معاشی بحران سے نکلنے کی امیدرکھنا خام خیالی ہوگی ۔
ملکی معیشت کی تباہی اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ دو چاردن میں نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں کی حماقتیں ہیں جو ملک کو ایسی تباہی کے دہانے پر لے آئی ہیں جہاں ہرسمت اندھیرا ہے اور آج نوبت ملکی اثاثے بیچنے یا گروی رکھنے پر آپہنچی ہے۔ ایسے حالات سے پریشان ملک کا ہر شہری اپنی قیادت سے ایسی پالیسیاں اپنانے کی توقع رکھتا ہے جن سے ملک معاشی گرداب سے نکلے اور قرضوں کے بوجھ سے نجات ملے مگر لگتا ہے کہ قیادت کوملک یا عوام کی نہیں بلکہ اپنی سیاسی کامیابیوں کی فکر ہے تحریکِ انصاف کے ملبے سے کئی جاعتیں بنانے کے باوجودپھربھی کامیابی کا یقین نہیں۔ اسی لیے مہربان نگران سیٹ اَپ لانے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے پر مجبور ہیں۔ رواں برس کے لیے کُل مختص نوے ارب ترقیاتی بجٹ میں سے 41ارب دوماہ کے دوران خرچ کرنے کامنصوبہ ہے تاکہ گلیاں و نالیاں بناکر لوگوں سے ووٹ لیے جا سکیں لیکن بغیر سوچے سمجھے اور منصوبہ بندی کے ترقیاتی کام کرانے سے خزانہ برباد ہونے کاقوی اندیشہ ہے۔ ممکن ہے اِس طرح تیز رفتار ترقیاتی کاموں کی شعبدی بازی سے کسی حد تک ووٹروں کی ہمدردیاں مل جائیں مگرایسی حرکتیں معاشی تباہی کی انتہا کی طرف جاری سفر کو تیز تر کردیں جس کا ادراک کرنا چاہیے۔
ہمارے حکمران پیسے مانگنے میں طاق اور نمائشی منصوبوںکے تو عادی ہیںمگراصل خرابی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ کئی عشروں سے جاری مالی بدانتظامی اورفضول منصوبوں کی وجہ سے ملک کی معاشی اتنی حالت خراب ہوتی گئی جس سے خزانے پر دبائو بڑھااورقرضے لیکر امورِ مملکت چلانے کی نوبت آئی۔ اب بھی اگر چین ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول نہ کرتا اور آئی ایم ایف سے قرض ملنے میں تاخیر ہو تی تو خدانخواستہ وطنِ عزیز دیوالیہ ہو جاتا۔ وائے افسوس کہ اب بھی ہوش کے ناخن لینے کی بجائے قومی سرمائے کاتحفظ نہیں کیا جارہا حالانکہ کمزور معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور غیر ضروری اور غیر پیداواری منصوبوں پر بھاری رقوم لُٹانے کی بجائے ایسی منصوبہ بندی کی جا ئے جس سے صنعت و زراعت کا بھلا ہو اور برآمدی مال میں اضافہ ہو۔
پاکستانی حکمران چین کے ہرحکم اور تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ بیجنگ سے جو بھی فرمائش آئے اُسے پورا کرنے میں سرعت کا مظاہرہ کیا
جاتا ہے۔ یہ روش کسی طرح بھی آزاد منش قوم کے شایانِ شان نہیں دوستی اور مجبوریاں اپنی جگہ،قومی مفاد کا تحفظ حکمرانوں کا اولیں فرض ہونا چاہیے، لیکن دوستی اور مجبوریوں کومدنظررکھتے ہوئے ہرفرمائش اور تجویز کی نہ صرف منظوری دے دی جاتی ہے بلکہ تکمیل کے لیے قومی مفاد کو بھی پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ ایساہی ایک منصوبہ اورنج لائن ٹرین معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کا ایسا اشتہار ہے جسے ماہرین معاشی مفاد سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ یہ منصوبہ دہلی میٹرو اور بھارتی بُلٹ ٹرین سے بھی کئی گُنا مہنگا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں مالی بدانتظامی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نشاندہی کی گئی ہے کہ بھارت نے دونوں منصوبوں کے لیے پچاس برس کے لیے صفر اعشاریہ ایک فیصد پر قرض لیا جبکہ ہم نے فیاضی اور نوازشات کی انتہا کرتے ہوئے 2036 تک تین فیصد کی بھاری شرح سود پر قرض لے لیا۔ دہلی میٹرو کو رواں رکھنے اور مرمت وغیرہ کی مدمیں 376روپے فی کلو میٹراخراجات جبکہ ہمارے بادشاہوں نے فی کلومیٹر 1990روپے کے حساب سے ادائیگیاں کردیں۔ اِس کہانی کے بعد معاشی تباہی کوسمجھنے میں کسی حوالے سے تشنگی نہیں رہتی۔ ہم دوستوں کو نوازنے پر آتے ہیں تو دوستوں کی خوشی کی خاطر اپنا گھر بھی لُٹادیتے ہیں ایسے دریا دل اورسخی لوگ ہمارے سوا دنیا کے کسی اور خطے میں کہیںنہیں مل سکتے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے منصوبے تیزرفتار ریل اور شاہراہوں کی بہتری چین کی مجبوری ہیں کیونکہ مغربی چین کے علاقوں کی گوادر تک جلدی اور محفوظ درآمدی ، برآمدی رسائی اِن کے بغیر ممکن نہیں اگر چین نے اپنے مفاد کے لیے ریل اور سڑکوں کے منصوبے شروع کیے ہیں تو اُس میں ہم سے زیادہ اُس کاا پنا مفادہے مگرملکی قیادت قرضوں کا بوجھ بڑھانے کے جُرم میں بخوشی شریک کارہے۔ حالانکہ یہ قرضے عالمی مارکیٹ سے تین سوگُنا زیادہ مہنگے ہیں لیکن ہماری قیادت کو پرواہ ہی نہیں یہ قرضے ایسے ہی ہے جیسے جسم سے آخری قطرے تک خون نکالنے کی اجازت دینا، یہ بے رحمی کی انتہاہے اب بھی وقت ہے دوستی میں قومی مفاد قربان کرنے کی روش پر چلنا چھوڑ دیاجائے۔ چینی تو دوستی کے باوجود اپنے نفع میں کمی نہیں کرتے، اب جبکہ ملکی درآمدات اسی ارب ڈالر کے ہندسے کو چھونے لگی ہیں اورپاکستان کا تجارتی خسارہ پچاس ارب ڈالر سے تجاوز کر نے لگا ہے چین کی طرف سے پاکستان کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں مل رہی بلکہ اُس کا حصہ بیس ارب چھ کروڑ ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ حالانکہ ہمارا سب سے زیادہ درآمدی بل سولہ سے اٹھارہ ارب ڈالر پیٹرولیم مصنوعات کا ہوتاہے جس میں چین کا کوئی حصہ نہیں اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم بے دریغ چین کی ناکارہ الیکٹرانکس مصنوعات خریدکر دوستی میں قومی مفاد قربان کررہے ہیں ۔یہ دانشمندانہ طرزِ عمل نہیں دوستی اپنی جگہ قومی مفاد کا تحفظ بھی اشد ضروری ہے، وگرنہ قرضوں کا انبارکم ہونے کی بجائے بڑھتا رہے گا ۔
ہماری قیادت آجکل ایران پر بھی کچھ زیادہ ہی فدا ہے، جب سے سعودیہ ایران سفارتی مراسم بحال ہوئے ہیں ،ہمارے دلوں میں بھی ایرانی اُلفت انگڑائیاں لینے لگی ہے۔ اِس الفت میں ہم نے تجارتی منڈیوں کے دروازے ایران کے لیے چوپٹ کھول دیے ہیں۔ ممکن ہے اِس میں قیادت کے ذہن میں یہ حکمت ہو کہ پیٹرول کے درآمدی بل میں کمی ہوگی۔ مگر یہ حکمت فائدے کی بجائے نقصان کا موجب ثابت ہورہی ہے۔ ایک طرف ملک میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں کئی گُنا اضافہ ہو نے کے ساتھ ملک کو کروڑوں ڈالرمحصولات میں کمی آگئی ہے ۔ قومی مفاد کاا یسا سودادنیامیں اور کہیں نہیں ہوتا۔ ہم نے خود کو لُٹنے کے لیے عالمی مارکیٹ میں بخوشی پیش کررکھاہے۔ اِس سے قبل کہ نقصان ناقابلِ تلافی ہو جائے قیادت اپنے فرائض قومی مفاد کاتحفظ یقینی بنائے دوستی اپنی جگہ ، قومی مفاد کی قربانی ملک کے مفاد میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں