جمہوری سیاست میں بندر بانٹ
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کی ایک کہانی میں دو بھوکی بلیوں کو تلاشِ بسیار کے بعد روٹی کا ایک ٹکڑا نظر آتا ہے ۔ ایک بلی جھپٹ کر اُسے لے بھاگتی ہے اور دوسری اُس کا پیچھا کرتے ہوئے ایک درخت کے نیچے پہنچ کر لڑنے جھگڑنے لگتی ہیں ۔ اتفاق سے اس درخت پر بیٹھا چالاک بندر اس منظر کو دیکھ کرافسردہ ہونے کے کے بجائے خوش ہوجاتا ہے ۔ اس کو غالباً وزیر اعظم کا مشہور مکالمہ ”آپدا میں اوسر” (یعنی آفت میں راحت کا موقع) یاد آگیا ہوگا ۔ دوسروں کی مصیبت سے اپنا کام نکال لینے کے فن سے وہ بندر بھی خوب واقف تھا اس لیے فوراً نیچے اُتر کر آیا اور ہمدردی و غمخواری کی اداکاری کرکے کہنے لگا ” اے بدنصیب بلیو ! تم ایک ہی نسل(ہندو) کی ہونے کے ساتھ بھوکی (غریب و مسکین ) بھی ہو اوردیکھو تمہیں غذا (آزادی ) بھی مل گئی ہے ، مگر لالچ اور خود غرضی نے تمہیں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار کر رکھا ہے ۔ انصاف کے مطابق اگر دونوں اس ٹکڑے کو برابر بانٹ لیتیں تو کتنا اچھا تھا۔ تمہاری لڑائی کا شور سن کر کوئی کتا(غیر) آ گیا تو پوری کے چکر میں آدھی بھی چلی جائے گی ۔بلیاں بندر کی چکنی چپڑی باتو ں کے جھانسے میں آکرسوچا بندر کی سمجھ داری اور انصاف سے بہت جلد ان کے اچھے دن آجائیں گے ۔ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے بندر کو ہی اپنا حکم بنالیا اور گہار لگائی ، اب تم ہی انصاف کرکے ہمارا قضیہ چکاو ۔یہ سن کر بندرکی بانچھیں کھل گئیں وہ دوڑ کر کمل کا ترازو لے آیااور روٹی کو دو ٹکڑے کرکے دونوں پلڑوں میں رکھ دیا ۔ منصوبے کے مطابق وزن برابر نہیں تھا اس لیے بندر نے بڑے ٹکڑے کو دانت سے کاٹ کر کم کیا اور کھا گیا ۔ پھر دوبارہ وزن کیا تو اب دوسرا ٹکڑا بڑا ہو گیا۔ اس کو بھی دانت سے کاٹا اور کھا گیا۔انصاف کی منتظر حیران پریشان بلیاں اس بند ربانٹ کو’ٹک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم’یہ منظر دیکھتی رہیں یہاں تک کہ بندر سارا روٹی چٹ کرگیا ۔
بندر نے جاتے جاتے اپنی چوری کو چھپانے کے لیے میڈیا کے سامنے الٹا بلیوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرا دیا ۔ اس نے کہا ان کے نیت کی خرابی نے یہ سارا کام بگاڑ ا ہے ۔ اپنا حسان جتاتے ہوئے وہ بلیوں کو مخاطب کرکے بولا” میں نے تمہاری ہمدردی میں دونوں ٹکڑوں کا وزن برابر کرنے کی خاطر جان توڑ محنت کی۔ تمہاری خاطر کمل کے ترازو کو اٹھائے میں اٹھارہ گھنٹوں سے نہیں سویا ۔ اس دوران میں نے تمہارے تحفظ کے لیے سرجیکل اسٹرائیک بھی کروایا اب تو میرے ہاتھ بھی تھک گئے ہیں۔ خیر مجھے میری مزدوری مل گئی اب تم دونوں کسی پکوڑے کی دوکان میں کچھ بچا کچا تلاش کرکے اپنا پیٹ بھر لو۔ مجھے یونیفارم سیول کوڈ لانے اور اسے بھنانے کی بڑی تیاری کرنی ہے اس لیے میں جھولا اٹھا کر چل پڑتا ہوں ”اس من کی بات کے ساتھ کھیل ختم اور روٹی ہضم ہوگئی۔ مودی کال(دور) میں سیاسی قلابازیوں کو اس کہانی کے تناظر میں دیکھا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے ۔
مہاراشٹر کی کہانی دہلی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔ گاندھی جی کے قتل نے گجرات سے زیادہ مہاراشٹر کو متاثر کیا کیونکہ ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کا تعلق اسی صوبے سے تھا ۔ وہ کوئی انفرادی فعل نہیں تھا بلکہ اس کی ذہن سازی کرنے والے آر ایس ایس کی داغ بیل مہاراشٹر کی سرزمین پر پڑی اور اس کا صدر دفتر بھی ناگپور میں تھا ۔ ناتھو رام گوڈسے کو آشیرواد دے کر اس مہم پر روانہ کرنے والے ونایک دامود ساورکر بھی مہاراشٹر کے رہنے والے تھے اس لیے گاندھی جی کے قتل کا سب سے شدید ردعمل اسی صوبے میں ہوا اورمراٹھا سماج نے ان برہمنوں پر بھی نزلہ اتارا جن کا سنگھ یا گوڈسے سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیہ جن سنگھ کا قیام دہلی میں کیا گیا۔ ہندو مہاسبھا کے بنگالی رہنما شیاما پرساد مکرجی کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ اس کے بعد چھبیس سالوں میں ایک درجن صدور میں سے کوئی بھی مہاراشٹر کا نہیں تھا ۔ ایمرجنسی کے اندر جن سنگھ کو جنتا پارٹی میں ضم کردیا گیا اور تین سال بعد جب بھارتی جنتا پارٹی کی شکل اس کا پونر جنم ہوا تب بھی انتیس سال تک کسی مراٹھی فرد کو صدارت کی گدی نہیں ملی ۔ نتن گڈکری پہلے اور آخری صدر مگر ان کو بھی بدعنوانی کاالزام لگا کر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا ۔
مہاراشٹر میں بی جے پی نے پرمود مہاجن کو آگے کرنے کے بجائے گوپی ناتھ منڈے جیسے پسماندہ رہنماوں کی مدد سے پارٹی کو مضبوط کیا اورپہلی بار شیوسینا کے ساتھ مل کر اقتدار پر فائز ہوئی۔ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرکے جب شیوسینا کے منوہر جوشی وزیر اعلیٰ بنے تو منڈے نائب وزیر اعلیٰ بنائے گئے ۔ان کے علاوہ نتن گڈکری سے اہم وزارتِ مالیات کے عہدے پر ایکناتھ کھڑسے کو فائز کیا گیا۔ اس کے بعد بیس سالوں تک بی جے پی اور شیوسینا انتخاب نہیں جیت سکے ۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی پہلی بار مہاراشٹر کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ۔اس وقت تک گوپی ناتھ منڈے کا انتقال ہوچکا تھا ۔ وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے ریاست میں ایکناتھ کھڑسے اورمرکز میں نتن گڈکری سب سے طاقتور دعویدار تھے ۔ نتن گڈکری کو کمزور کرنے کے لیے مودی جی نے ان کے برہمن حریف دیویندر فڈنویس کو وزیر اعلیٰ بنادیا ۔ اس طرح ایکناتھ کھڑسے کی حق تلفی ہوئی اور وہیں سے بی جے پی کا زوال شروع ہوگیا جو ہنوز جاری و ساری ہے ۔مودی کے باوجود بی جے پی 2014جتنی اسمبلی کی نشستیں پھروہ نہیں جیت سکی اور نہ مستقبل میں اس کا امکان ہے کیونکہ دیویندر فڈنویس نے اپنی کرسی محفوظ کرنے کے لیے ایکناتھ کھڑسے ،پنکجا منڈے اور ونود تاوڑے جیسے مقبول پسماندہ حریفوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ اس سے پارٹی کی جڑیں کمزور ہوگئیں جس کو پورا کرنے کے لیے بیرونی مدد لی گئی جو کام نہ آئی۔
2014 میں بننے والی دیویندر فڈنویس کی سرکار واضح اکثریت سے محروم تھی ۔ اس وقت اسے اپنے نظریاتی حلیف شیوسینا کے ساتھ ہاتھ ملاکر اعتماد کا ووٹ حاصل کرناچاہیے تھا مگر اس نے ادھو ٹھاکرے کے بجائے این سی پی کی بلا واسطہ مدد سے اپنا مقصد حاصل کرکے کامیاب ہوئی ۔ حکومت سازی کرکے تمام اہم وزارتوں پر قبضہ کرنے بعد شیوسینا سے الحاق کیا اور اس کے سامنے سوکھی ہڈیاں ڈال دیں ۔ اپنی پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ادھو ٹھاکرے کو وہ رسوائی برداشت کرنی پڑی ۔ان کو بی جے پی کے ذریعہ جس بات کا خطرہ تھا وہ
بالآخر ساڑھے سات سال بعد درست ثابت ہوا اور ایکناتھ شندے کی مدد سے شیوسینا کو توڑ دیا گیا ۔ 2019میں انتخابی کا میابی کے بعد بی جے پی اور شیوسینا کے درمیان ڈھائی سال کی سرکار پر اختلاف رونما ہوا تو دیویندر فڈنویس نے اپنے ہندوتوا نواز کو اعتماد لینے کے بجائے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اجیت پوار کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا اور ان کی مدد سے حکومت سازی کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ وہ اگر ڈھائی سال کی تقسیم پر راضٰ ہوجاتے تو آج نائب نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہوتے ۔
دیویندر فڈنویس اپنی نادانی سے شیوسینا کے ساتھ ساتھ این سی پی کو بھی ناراض کرچکے تھے اس لیے شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے ایک ساتھ آگئے۔ اس موقع پر شرد پوار نے کانگریس کو الحاق میں شامل کرے مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کا منفرد تجربہ کیا۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں ٹھیک ٹھاک سرکار چلی حالانکہ کورونا کی وبا نے پہلے حالات خراب کیے اور اس کے بعد خود ادھو ٹھاکرے بھی بہت بیمارہو گئے ۔ اس دوران پارٹی کا سارا کام کاج ایکناتھ شندے کو سونپ دیا گیا یعنی اقتدار کی کرسی پر نام ادھو ٹھاکرے کا اور کام ایکناتھ شندے کا تھا۔ بی جے پی کے چالاک بند ر نے دیکھا کہ اب یہ روٹی عملاً دو بلیوں کے درمیان تقسیم ہوگئی ہے لیکن دونوں صبر و سکون کے ساتھ اسے مل جل کر نوش فرما رہے ہیں۔ اس نے سوچا اگر ان میں لڑائی لگادی جائے تو اس کا فائدہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے لیے سازش کے طور پر ایکناتھ شندے کے سامنے ہڈی پھینکی گئی تو انہیں نے اسے لپک لیا اورپندرہ پلوّں سمیت سورت فرار ہوگئے ۔ اب کیا تھا شیوسینک چیتوں کو جیل جانے یا ڈبل انجن ریل میں سوار ہونے کی پیشکش کی جانے لگی ۔ جیل کی صعوبت کے برعکس ریل میں کروڈوں کے تحائف کو دیکھ کر اچھے اچھوں کی نیت بدل گئی اور وہ بلی بن کر گوہاٹی روانہ ہوگئے ۔ بلیوں کی یہ فوج جب گوا کے راستے ممبئی پہنچی تو بندر کو امید تھی کہ اب اقتدار کا تاج اس کے سر پر رکھا جائے گا لیکن اسے بلی کے سر پر رکھ کر اس کے گلے کا پٹا بندر کو تھما دیا گیا۔ اس طرح بندر وزیر اعلیٰ بننے کے بجائے مداری بن گیا اور مرکز کے اشارے پر تماشا کرنے لگا ۔
٭٭٭