ہماری کتابیں جل رہی ہیں!!
شیئر کریں
راؤ محمد شاہد اقبال
طاقت ور کے سامنے پورا سچ بولنے کے لیے آزادی اظہار رائے سے زیادہ جرأتِ اظہار کی ضرور ت ہوتی ہے ۔کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ صاحبِ عزیمت افراد نے سماج میں آزادی اظہار رائے حاصل نہ ہونے کے باوجود بھی طاقت ور کے سامنے ڈٹ کر سچ بولا،صرف اِس لیے کہ وہ اخلاقی اعتبار سے اُس بلندی پر تھے کہ اُن میں جرأت اظہار کی کمی نہ تھی۔ جبکہ دورِ جدید میں لوگوں کی اکثریت جھوٹ کے سامنے سچ بولنا تو کجا،سچ سننے سے بھی ڈرتی ہے، فقط اِس لیے کہ ہم میں اخلاقی اَبتری اوربزدلی کی حد درجہ زیادتی ہے ۔بظاہر کہنے کو ہم سب آزادی اظہار رائے کے ایسے خاص سنہری زمانے میں زندہ ہیں ، جہاں ہمیں اپنی رائے کے اظہار اور ہر قسم کی بات کہنے کے لیے اَن گنت ذرائع ابلاغ باآسانی دستیاب ہیں ۔مگر المیہ ملاحظہ ہو کہ اِس کے باوجو لوگوں کی اکثریت کی جانب سے آزادی اظہار رائے کے نام پر ابلاغ کے ہر جدید ذریعہ کو صرف اور صرف جھوٹ تخلیق کرنے اور اُسے اکناف وعالم میں سرعت کے ساتھ پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے کی سہولت معاشرے میںمحبت ، رواداری، سچ اور حق کے فروغ کے بجائے، بڑی بے دردی کے ساتھ افراتفری، انارکی اور نفرت کو فروغ دینے کے لیے بروئے کار لائی جارہی ہے ۔کیونکہ آزادی اظہار رائے کا خاص معجزاتی و طلسماتی چراغ، عقل وخرد اور اخلاقی اوصاف رکھنے والے تربیت یافتہ اشخاص کے بجائے اور ہر اُس کوتاہ عقل شخص کی دسترس میں آ گیا ہے ،جس کا ذہن غیر تربیت یافتہ اور فہم و فراست سے کلیتاً عاری ہونے کے باعث اِس کے درست استعمال سے قطعی ناواقف ہے۔
جب آزادی اظہار رائے جیسے انتہائی حساس اور بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کیے جانے والے ہتھیار کو ایک کھلونے کی مانند ہر عامی و جاہل شخص کی دسترس میں اُس کا دل بہلانے کے لیے مہیا کردیا جائے تو پھر انتہائی معذرت کے ساتھ ویسے ہی دل خراش واقعات رونما ہوتے ہیں، جیسا کہ یورپی یونین کے ایک اہم ترین ملک سویڈن میں وہاں کی عدالت کی اجازت سے عید الاضحی کے پہلے روز دارالحکومت اسٹاک ہوم کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی صورت میں پیش آیا ۔ حالیہ واقعہ آزادی اظہار رائے کے حکومتی نگرانی میں استعمال کی بدترین مثال تھا ۔کیونکہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں سوئیڈش پولیس کی حفاظت میں بدبختوں کے ایک گروہ نے نہ صرف قرآن پاک کا نسخہ شہید کیا بلکہ اس کے خلاف احتجاج کرنے والے ایک مسلمان نوجوان کو آزادی اظہار رائے میں رخنہ ڈالنے اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے الزام میں گرفتار بھی کرلیا ۔ مذکورہ واقعے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی او ر پوری مسلم اُمہ نے کتابِ مقدس کی بے حرمتی میں ملوث افراد اور اُن کے سہولت کاروں کی پرزور انداز میں مذمت تو ضرور کی ۔ مگر کسی نے بھی آزادی اظہاررائے کی اُس مادر پدر آزادی کی مذمت نہیں کی ، جس کی وجہ سے ایسے واقعات جنم لیتے ہیں ۔
طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے سوئیڈن کے خلاف ہونے جانے والے عالمگیر احتجاجی مظاہروں میں آئندہ قرآن حکیم کی بے حرمتی روکنے کے لیے اقدامات پر زور دیے جانے کے بعد جہاں سوئیڈش حکومت نے توہین قرآن پاک کا سبب بننے والے”اسلاموفوبک ”ایکٹ کی مذمت کرکے مسلم اُمہ کے جذبات مجروح ہونے پر معذرت کی ناکام کوشش کی تو وہیں ساتھ ہی اس بات کا بھی اعادہ کرنا ضرور سمجھا کہ سوئیڈش حکومت آزادی اظہار رائے پر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔جبکہ رواں ہفتہ آزادی اظہار رائے کے ساتھ اپنے غیر متزلزل عزم صمیم کو ثابت کرنے کے لیے سوئیڈش پولیس نے اسٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر ایک اور آسمانی کتاب یعنی تورات ِمقدس کو نذرِ آتش کرنے کا اجازت نامہ بھی دے دیا ہے۔ قرآن پاک کے مقدس صفحات کی بے حرمتی کے کئی ہفتوں بعد تورات کو نذرِ آتش کیے جانے کے عمل ِ قبیح سے کیا دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو تسکین حاصل ہو گی ؟ یقینا بالکل بھی نہیں ، کیونکہ ہم مسلمان تمام آسمانی صحائف کے الہامی ہونے پر کامل ایمان رکھتے ہیں ۔لہٰذا، تورات ہو ،زبور ہو یا پھر انجیل مسلمانوں کے نزدیک تمام الہامی صحائف و کتب کی بے حرمتی بہر صورت ناقابلِ برداشت ہے ۔ مگر اہل مغرب یہ بات نہیں جانتے اور جان بھی کیسے سکتے ہیں۔جب کہ وہ دورِ جدید کے سب سے بڑے بُت ”آزادی اظہار رائے ” کے علاوہ کسی اور شے کو وہ سرے سے مقدس یا لائق احترام ہی نہیں سمجھتے ہیں ۔
آزادی اظہار رائے (Freedom of Speech) بظاہر سننے میں یہ الفاظ کتنے خوب صورت اور دل کش لگتے ہیں ۔ ماضی میں انسان کے پاس اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کے لیے معمولی اور محدود ذرائع بھی نہیں ہوتے تھے۔ مگر پھر بھی بعض جرأت مند لوگ مذکورہ الفاظ کی طاقت کو درست انداز میں بروئے کار لاکر سماج میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بننے کو کوشش ضرور کرتے تھے ۔ مگر آج کے دورِ جدید میں جب ہر شخص کو اظہار رائے کے لیے غیر معمولی اور لامحدود ذرائع ابلاغ دستیاب ہیں تو وہ اُنہیں اپنے ذاتی رنج اور غصہ کے اظہار ، مخالفین پر طعن و تشنیع ،گالم گلوچ اور الزامات کی بوچھاڑ یا پھر سماج میںنفرت، افراتفری اور ریاستی ڈھانچہ کو کمزور کرنے کے لیے دن رات استعمال کرنے میں جُتا ہوا ہے ۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ آزادی اظہار کے نام پراپنے مخالفین پر بلا ثبوت سنگین الزامات عائد کرنے والے بدطینت لوگ دوسروں کے جذبات مشتعل کرنے والی مذموم اور سفاکانہ حرکتیں کرکے بعد ازاں اُسے سماج میں شعور کی بیداری کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ کسی بھی شے کو نذرِ آتش کرنے والے لوگ چاہے اُن کا تعلق سیاسی طبقہ سے ہو یا پھر مذہبی طبقے سے اُن کے اور شعور کے درمیان اُتنا ہی فاصلہ ہے ،جتنا کہ زمین آسمان کے درمیان ۔
٭٭٭