مغربی بنگال میں بی جے پی کا عروج و زوال
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی بنگال میں بی جے پی کے عروج و زوال کی کہانی 2014کے قومی انتخاب سے شروع ہوکر حالیہ بلدیاتی انتخاب پر ختم ہوتی ہے ۔ 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں ترنمول کانگریس نے 39.05% ووٹ حاصل کرکے اپنی طاقت میں 8.13 فیصد کا اضافہ کیا تھا اور 34نشستوں پر کامیابی درج کرائی تھی ۔ارکان پارلیمان کی یہ تعداد پہلے کے مقابلے 15 زیادہ تھی۔ اس کے برعکس29.71% ووٹ حاصل کرنے کے باوجود اشتراکی محاذ کو 2 پر اکتفا کرنا پڑا تھا اور اسے 13 نشستوں کا نقصان ہوا تھا۔ ان نتائج سے متاثر ہوکر اشتراکی جماعتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان کی اصلی حریف ترنمول ہے اور اگر وہ کمزور نہ ہو تو ان کی دال نہیں گلے گی اس لیے آگے چل کر پہلے ‘رام پھر بام (دایاں بازو)’ کا نعرہ لگایا گیا۔ بی جے پی اس وقت 17.02% ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر آچکی تھی۔ اس نے اپنی جھولی میں 10.88 فیصد ووٹ کا اضافہ کرکے 2 نشستوں پر قبضہ کرلیا تھا اور ووٹ میں بڑے فرق کے باوجود ارکان پارلیمان کی تعداد کے لحاظ سے اشتراکیوں کے ہم پلہ ہوگئی تھی ۔یہ پہلے کے مقابلے صرف 1 کا اضافہ تھا مگر اعدادوشمار کی دنیا میں ا سے سو فیصدی بڑھوتری کا نام دیا جاتا ہے ۔کانگریس حسبِ سابق خستہ حال تھی ۔اس کے پاس 3.85 فیصد کی کمی کے باوجود9.58% ووٹ تھے مگر وہ 4نشستیں جیت گئی تھی ۔ یہ تعداد پہلے مقابلے 2 کم تھی۔
2019 میں مغربی بنگال کے اندر ایک ایسا چمتکار ہوگیاجس کا تصور خود بی جے پی نے بھی نہیں کیا تھا۔اس مرتبہ ترنمول کانگریس نے 43.69% ووٹ حاصل کیے جو پہلے کے مقابلے 4.64 فیصد زیادہ تھے اس کے باوجود اس کوصرف 22 نشستوں پر کامیابی ملی یعنی پہلے کے مقابلے 12 ارکان پارلیمان کم ہوگئے ۔ اس کے برعکس بی جے پی نے 40.64% ووٹ حاصل کرلیے یعنی پہلے 22.25 فیصدکا زبردست اضافہ اور اپنے ارکانِ پالیمان میں 16 بڑھاکر 18 پر پہنچ گئی ۔ اس طرح ترنمول اور اور بی جے کے ووٹ تناسب میں صرف تین فیصد اور ارکان کی تعداد میں چار کا فرق رہ گیا ۔ اس دوری کو ختم کرنے کی خاطر صوبائی الیکشن میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا مگر وہ فاصلہ گھٹنے کے بجائے بڑھ گیا ۔ ترنمول کو پارلیمانی انتخاب میں کانگریس کے سبب فائدہ ہوا۔ اس کی نشستیں تو دو کی دو رہیں مگر ووٹ کا تناسب 4.09 فیصد گھٹ کر5.67% پر آگیا یعنی ۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ فائدہ اشتراکیوں سے ہوا ۔وہ لوگ صرف 6.34% فیصد ووٹ حاصل کرسکے اور ان کے 16.72 فیصدووٹ بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کانگریس سے زیادہ ووٹ لے کر بھی اپنا کھاتا نہیں کھول سکے اور صفر پر آگئے ۔
یہ بی جے پی کے عروج کی داستان تھی مگر اس کے بعد منعقد ہونے والے 2021کے صوبائی انتخاب سے اس کا زوال شروع ہوگیا اور موجودہ بلدیاتی انتخاب کے اندر وہیں لے گیا جہاں وہ دس سال پہلے تھی۔ ویسے مودی اور شاہ نے اپنی ترقی کا سفر جاری رکھنے کے لیے جوکچھ بھی ممکن تھا وہ کیا ؟ اس میں ممتا بنرجی کے جلسۂ عام میں جئے شری رام کے نعرے لگا کر پریشان کرنا سے لے کر سڑکوں پر ہنگامہ آرائی تک سارے حربے استعمال کیے گئے ۔ ٹی ایم سی کے بدعنوان رہنماوں کو ای ڈی سے خوفزدہ کرکے اپنے خیمہ لانے کی غیر فطری سعی کی گئی۔ مودی جی نے رابندر ناتھ ٹیگور کا بھیس دھار لیا ۔ لمبی داڑھی کے ساتھ مخصوص انداز میں شال اوڑھ کر عوام کو فریب دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد جب دیکھا کہ لوگ جھانسے میں نہیں آرہے ہیں تو خود وزیر اعظم نے ایک خاتون وزیر اعلیٰ کی عوامی جلسے میں نہایت مضحکہ خیز انداز میں توہین کرڈالی۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کو بھیج کر نفرت کا زہر پھیلایا گیا اور وزیر داخلہ نے کمال رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھری محفل میں ایک صحافی کو بری طرح ڈانٹ دیا لیکن یہ سارے ہتھکنڈے ناکام رہے اور ایسے نتائج سامنے آئے جو بی جے پی کے ہوش اڑانے والے تھے ۔
صوبائی انتخاب میں ٹی ایم سی نے اپنے ووٹ میں تقریباً پانچ فیصد کا اضافہ کرکے اسے 48.02 فیصد پر پہنچا دیا اس طرح جملہ 288 نشستوں میں سے اسے 215 پر کامیابی حاصل ہوگئی جو پچھلی کامیابی سے دو زیادہ تھی ۔ اس کے برعکس بی جے پی کے ووٹ کا تناسب 37.97 فیصد پر آگیا اس لیے اقتدار کا خواب دیکھنے والی زعفرانی جماعت منہ کے بل گرگئی اور اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد77 پر سمٹ گئی۔ پچھلے صوبائی انتخابات سے اس کا موازنہ کیا جائے تو بی جے پی ارکان اسمبلی کی تعداد میں 74 کا اضافہ تھا مگر زعفرانی پارٹی اور اس کا حواری میڈیا تو پارلیمانی کامیابی کو دوہرانے کا سپنا دیکھ رہا تھا ۔ ممتا بنرجی نے اپنے پیروں پرپٹیّ باندھ کرجو کھیلاکیا تھا اسی کو پھر سے گرام پنچایت، پنچایت سمیتی اور ضلع پریشد کے انتخابات میں اعادہ کرکے ثابت کردیا کہ ان کی کامیابی محض اتفاق نہیں تھی بلکہ عوام میں وہ اب بھی بہت زیادہ مقبول ہیں ۔ترنمول کانگریس نے ریاست کے ضلع پریشد میں تقریباً 80 فیصد سیٹوں پر قبضہ کر کے بی جے پی،سی پی آئی(ایم)،کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے امیدواروں کو من جملہ 20 فیصد کے اندر لپیٹ دیا ۔
ضلع پریشد کی کل 928سیٹوں میں740سیٹوں پر ترنمول کانگریس کو کامیابی ملی جو 80 فیصد ہے ۔ اس کے مقابلے بی جے پی کو صرف دو فیصد نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا۔ ٹی ایم سی نے اپنی غیر معمولی کامیابی کا پرچم گرام پنچایت اور پنچایت سمیتیوں میں بھی لہرایا۔ گرام پنچایت کی 63 ہزار 229 سیٹوں میں سے ترنمول نے 41 ہزار 71 سیٹوں پر قبضہ کر لیا ۔ یہ 65 فیصد بنتا ہے جبکہ بی جے پی کی کامیابی صرف پندرہ فیصد رہی ہے ۔ اسی طرح پنچایت سمیتی کی 9730 سیٹوں میں سے ترنمول کانگریس نے 4938 نشستوں پر کامیابی درج کرائی اور یہ بھی 51فیصد ہے حالانکہ یہاں بی جے پی دس فیصد سے آگے نہیں بڑھ پائی ۔ اس کا موازنہ اگر صوبائی انتخاب سے کیا جائے تو ترنمول نے 74فیصد اور بی جے پی نے 26 فیصد نشستوں پر قبضہ کیا تھا جبکہ پارلیمانی انتخابات میں دونوں کی نشستوں کا فرق صرف دس فیصد تھا یعنی ٹی ایم سی کی 55اور 45 فیصد نشستیں تھیں۔ ان اعدادو شمار سے یہ بات نکل کر آتی ہے کہ بی جے پی کی مقبولیت کا گراف تیزی
سے گر رہا ہے اور آئندہ چند ماہ میں اس کے اندر مزید کمی آئے گی۔ آئندہ پارلیمانی انتخاب میں اگر ٹی ایم سی کے ساتھ اشتراکی اور کانگریسی ہاتھ ملا لیں تب تو اس کا سپڑا صاف بھی ہوسکتا ہے ۔
بی جے پی کو اپنی متوقع شکست کا اندازہ اس وقت ہوگیا جب گرام پنچایت کی 63 ہزار 229 سیٹوں میں سے 8002 نشستوں پر بلا مقابلہ جیتنے والی ترنمول کانگریس کے 7,944 امیدوار تھے جبکہ بی جے پی نے 2، سی پی آئی (ایم) نے تین اور آزاد امیدواروں نے 53 سیٹیں بغیر مقابلہ کے جیتی تھیں۔ پنچایت سمیتی کی جملہ 9730 سیٹوں میں سے 991 امیدوار بلا مقابلہ جیت گئے ان میں بھی اکیلی ترنمول کے 981 تھے جبکہ دیگر تمام پارٹیوں کے 10 امیدواروں کو بغیر مقابلے کے جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہی حال 928 ضلع پریشد سیٹوں پربھی تھا وہاں بھی ترنمول کو 16ضلع پریشد پر انتخاب لڑنے کی زحمت ہی نہیں کرنی پڑی اور وہ کامیاب ہوگئی۔ اس سے اندازہ لگا کر بی جے پی نے انتخابی مہم چلانے کا کام علاقائی رہنماوں کو سونپ دیا ۔ اس دوران وہاں نہ تو مودی جی گئے اور نہ امیت شاہ نے زحمت کی۔ اسی طرح اشتعال انگیزی کے لیے بدنام یوگی ادیتیہ ناتھ اور بدزبانی کے لیے مشہورہیمنتا بسوا سرما کی خدمات نہیں حاصل کی گئیں ورنہ اب جو کچھ ملا ہے وہ بھی نہ ملتا ۔ اس طرح مغربی بنگال میں بی جے پی کے عروج و زوال کو سمجھا جاسکتا ہے ۔
قومی ذرائع ابلاغ میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے کہیں زیادہ سے کہیں زیادہ غلغلہ اترپردیش کے یوگی ادیتیہ ناتھ کا ہے ۔ دوماہ قبل 4 اور 11 مئی کے درمیان یوپی میں بھی دو مرحلوں کے اندر بلدیاتی انتخابات ہوئے ۔ مغربی بنگال کے بلدیاتی انتخاب کے حوالے سے توجوش اتنا زیادہ تھا کہ اسیّ فیصد سے زیادہ پولنگ ہوگئی مگریوپی میں صرف 52 فیصدیعنی 4.32 کروڑ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔ اس سے پتہ چل گیا کہ اترپردیش کے عوام کو انتخابات میں کم دلچسپی اور زیادہ مایوسی ہے ۔یوپی میں بی جے پی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر میئر کی سبھی 17 سیٹوں پر تو قبضہ کر لیا لیکن پنچایت کی سطح پر وہ ترنمول جیسی کا میابی نہیں درج کراسکی۔ نگر پالیکا اور نگر پنچایت انتخاب میں بی جے پی کو نصف سے کم سیٹیں حاصل ہوئیں ۔ نگر پالیکا کی 199 سیٹوں میں سے 95 بی جے پی، 39 ایس پی، 15 بی ایس پی، 4 کانگریس اور 44 دیگر کے حصے میں چلی گئیں ۔ نگر پنچایت کے 544 سیٹوں میں سے صرف 196 سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ 89 پر ایس پی، 41 پر بی ایس پی، 12 پر کانگریس اور 206 پر دیگرلوگ قابض ہو گئے ۔ پہلے بھی بی جے پی کو نگر پالیکا،نگر پریشد اور نگر پنچایت کی جملہ 12644 نشستوں میں سے 2366 سیٹیں ملی تھیں اور 3656 مقامات پر اس کے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا کے جعلی شیر اور میدان کی اصلی شیرنی کے درمیان مقبولیت کا کتنا بڑا فرق ہے ۔
٭٭٭