سیپا خطرناک صنعتی فضلے کے لائسنس کی تجدید کرنے میں ناکام
شیئر کریں
محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سیپا خطرناک صنعتی فضلے کے لائسنس کی تجدید کرنے میں ناکام ہوگیا، کئی کمپنیز غیر قانونی طور پر خطرناک صنعتی فضلہ ذخیرہ کرنے کی سرگرمیاں کرتی رہیں، ڈی جی سیپا کے چہیتے افسران نے کمپنیز سے لاکھوں روپے رشوت لے لی۔ جرأت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن اتھارٹی (سیپا ) کے خطرناک صنعتی فضلے کے رول 13ایک اور 14 ایک کے تحت خطرناک صنعتی فضلہ ذخیرہ کرنے والی کمپنی کا لائسنس مدت ختم ہونے سے ایک ماہ پہلے جمع کی جائے گی ، سیپا نے خطرناک صنعتی فضلہ ذخیرہ کرنے کے 42 لائسنس جاری کئے اور 20 نجی لیبارٹریز کو سرٹیفکیٹ جاری کئے کہ وہ سیپا کے طریقہ کار کے تحت ٹیسٹ کرسکتے ہیں ،سال 2019 سے سال 2022 کے دوران سیپا نے خطرناک صنعتی فضلے کا لائسنس لینے والی کمپنی کے لائسنس کی تجدید نہیں کی اور لیبارٹریز کو جاری کئے گئے سرٹیفکیٹس کی بھی تجدید نہیں کی گئی اس کے باوجود کئی کمپنیزخطرناک صنعتی فضلہ ذخیرہ کرنے کی سرگرمیاںکرتی رہیں، خطرناک صنعتی فضلہ ذخیرہ کرنے کا لائسنس لینے والی کمپنیز نے لائسنس کی تجدید کے لئے کیسز جمع ہی نہیں کروائے، کمپنیز کی قوائد کی خلاف ورزی کے باوجودنان کیڈر ڈائریکٹر جنرل سیپا نعیم احمد مغل نے مختلف کمپنیز پر جرمانہ عائد نہیں کیا، لائسنس کی تجدید نہ کروانے والی کمپنیز میں نور گارمینٹس، میسرز کورو بوکس، میسرز سردار ہوزری پروسیسر، میسرز آر کوروما پاکستان لمیٹڈ، میسرز پاک پیٹرو کیمیکل انڈسٹریز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، ایس جی ایس انوائرمنٹل لیب، ایچ ایس ای سروسز لیب، انویٹیکل لیب اور پیراک ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ فائونڈیشن لیب شامل ہیں۔ سیپا کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نان کیڈر ڈی جی سیپا نعیم احمد مغل نے خطرناک صنعتی فضلے کا لائسنس لینے والی کمپنیز کو لائسنس کی تجدید نہ کروانے پر نرمی اختیار کی اور کمپنیز پر جرمانہ بھی عائد نہیں کیا، ڈی جی سیپا کے چہیتے افسران کینیڈین شہری ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران خان اور ڈپٹی ڈائریکٹر منیر عباسی نے کمپنیز سے لاکھوں روپے بطور رشوت وصول کئے۔ واضح رہے کہ سیپا نے رواں برس خطرناک صنعتی فضلہ محفوظ طریقوں سے ٹھکانے لگانے کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کے سینکڑوں لائسنس منسوخ بھی کئے تھے۔