( ڈسٹرکٹ سائوتھ )مویشی منڈی میں جانوروں کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر
شیئر کریں
ساحل کنارے لگی مویشی منڈی میں قیمتیں شہریوں کی گنجائش سے باہر قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے شہریوں کو خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور کر دیا
بجٹ کے باعث اکثر شہری بڑی قربانی کی جگہ بکرا خریدنے کو ترجیح دینے لگے،دررانِ سروے خریدار شہریوں اور بیوپاریوں سے تفصیلی گفتگو
کراچی (رپورٹ سجاد کھوکھر) ساحل کنارے لگی مویشی منڈی میں قیمتیں شہریوں کی گنجائش سے باہر قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے شہریوں کو خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور کر دیا بجٹ کے باعث اکثر شہری بڑی قربانی کی جگہ بکرا خریدنے کو ترجیح دینے لگے تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ سائوتھ ساحل کنارے لگی مویشی منڈی کا سروے کیا گیا دررانِ سروے خریدار شہریوں اور بیوپاریوں سے تفصیلی بات چیت کی گئی ڈیفنس ویو سے آئے شہری اکرم جوکھیو نے بتایا اسلام آباد سے کراچی تک حکومت ناکام ہو چکی ہے ہمیں بیوپاریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے گورنمنٹ کو چاہیئے تو یہ تھا کہ وزن کے حساب سے سرکاری ریٹ نکالے جاتے جس میں خریداروں کو اندازہ ہوتا کہ کتنے من کا جانور کس قیمت میں دستیاب ہو گا منڈی میں آ کر ایسے لگ رہا جیسے رواں برس قربانی کرنا دشوار کن ہے میرا بجٹ دو لاکھ کا ہے جبکہ دو لاکھ والے جانور کی قیمت چار لاکھ سے زائد ہے کراچی انتظامیہ کو ہو شربا قیمتوں میں اضافے کے خلاف نوٹس لینا چاہیئے یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ جس کا جتنا چاہے اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا دیں سول لائن سے آئے تنویر حسین نے بتایا کہ میں بچوں کی فرمائش اور ضِد کی وجہ سے دو بکرے چار لاکھ میں خرید کر لے جا رہا ہوں جو انتہائی مہنگے ہیں لیکن کیا کریں قربانیاں تو کرنی ہیں اختر کالونی سے آئے خریدار شہری افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ اِس برس تو قربانی کے جانوروں کی قیمتیوں نے خریدار شہریوں کو خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور کر دیا ہے دوپہر ایک بجے منڈی آیا تھا پانچ بج چکے ہیں لیکن انتہائی مہنگے داموں ساڑھے تین لاکھ کا جانور خرید کر لے جانے لگا ہوں دوسری جانب مویشیوں کے بیوپاریوں نے بتایا کہ قیمتوں میں اضافے کا سہرہ صرف ہمیں ہی نہیں جاتا بلکہ حکومت وقت اور انتظامیہ کراچی کو بھی جاتا ہے گزشتہ برس مویشیوں خوراک جو بوری پانچ ہزار کی تھی وہ رواں سال تیرہ ہزار سے زائد کی ہے ہم ملتان سے تین گناہ زائد کرایہ بھر کر یہاں مشکل سے پہنچے ہیں ایک ایک جانور پر سال بھر کی محنت ہے میرے پاس پانچ لاکھ سے دس لاکھ مالیت کے جانور ہیں کراچی کے ٹول ٹیکس کے مقام سے لے کر یہاں پہنچنے تک ہم سے ہر کسی نے دیہاڑی لگائی ہے نہ دینے کی صورت میں اکثر بیوپاریوں کی لوڈرز گاڑیوں کو بلاوجہ روک رکھتے ہیں مہنگائی کے طوفان میں قصور وار گورنمنٹ انتظامیہ بھی ہے ریٹ نکالنا تو حکومتی انتظامیہ کا کام ہے خریدار شہری قیمتیں بڑھنے کا زمہ ہمیں ہی کیوں ٹھہراتے ہیں