علامہ اقبال اور امت مسلمہ کا احیاء
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
علامہ محمد اقبال کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا گہرا ادراک و احساس تھا اور اس عظمت کے کھو جانے کا شدید ملال تھا۔ مگر وہ اس پر ماتم نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام یاد کراتے ہیں اور انہیں یہ مقام پھر سے حاصل کرنے کا ولولہ اور حوصلہ دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ ملت اسلامیہ کی عظمت کی بحالی کے عزم سے مزین ہے۔ علامہ نے ملت اسلامیہ کو خواب غفلت سے بیدار ہونے، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور با وقار قوم کی طرح جینے کا ہنر اور حوصلہ دیا ہے۔قلم کاروان اسلام آبادعالمی مجلس بیداری فکراقبال کی ادبی نشست میں”یہ جہاں چیزہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں”کے عنوان پر علامہ محمدکاشف نور نے کہاکہ علامہ نے اپنی نظم "جواب شکوہ”امت کوبہت بڑاپیغام دیاہے۔انہوں نے عصری حالات پرتبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ الحادی فکرنے نسل نومیں گھرکرلیاہے اورتعلیمی ادارے الحادودہریت کے مراکزبن چکے ہیں۔ علامہ نے اس کا بہترین علاج تجویزکیاکہ”قوم مذہب سے ہے مذہب جونہیں تم بھی نہیں”اور "دہرمیں اسم محمدسے اجالاکردے”۔ عشق نبویۖکاتقاضاہے کہ دنیامیں انۖ کالایاہوانظام کونافذکیاجائے۔ تفہیم اقبال کے لیے قرآن فہمی بہت ضروری ہے کیونکہ کلام اقبال دراصل قرآن مجیدکی ہی تشریح و توضیح ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری کا اصل اور نچوڑ دیکھا جائے تو وہ ملت بیضاکی عظمت رفتہ کی بحالی ہے۔ انکا یہ ایمان تھا کہ عشق مصطفی ۖ میں دین و دنیا کی فلاح ہے اور اسی جذبہ سے ملت بیضاکی عظمت رفتہ کو واپس لایا جا سکتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی عزت و سربلندی کے حصول کے لیے وہ شریعت کے اولین سرچشموں سے سیرابی اور صحابہ کرامکی مثالی زندگیوں کوسامنے رکھتے ہوئے نوجوانان ملت کو بیدارکرتے ہیں۔
علامہ اقبال اپنے فکر و تخیل کی دنیا میں خود کو ہمیشہ قافلہ حجاز سے وابستہ سمجھتے رہے اور رسول اکرمۖ کی ذات گرامی ان کے قلب و روح کے لیے سامان راحت بنی رہی اور سفرِ زندگی میں ہر قدم پر اقبال ذات مصطفی ۖ ہی کو اپنا ہادی و راہنما تسلیم کرتے رہے۔علامہ محمد اقبال کی شاعری سوئی ہوئی روحوں کو بیدار کرنے والی شاعری ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے سوئی ہوئی مسلم امہ کو جگایا اور اپنے اپنے فرائض یاد دلائے۔ علامہ اقبال کی زیادہ تر شاعری فارسی میں ہے لہٰذا ایران میں علامہ اقبال کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال کی شاعری پر دنیا کے مختلف ممالک میں آج بھی کام ہو رہا ہے۔ آپ کی شاعری کے تراجم ہو چکے ہیں اور تعلیمی اداروں میں آپ کی شاعری پڑھائی جا رہی ہے۔
حضرت علامہ اقبال راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔ وہ ملک کے ولی بھی تھے۔ عشق خدا اور عشق رسول ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے جس کی جھلک ان کی شاعری میں ملتی ہے۔ حضرت علامہ اقبال نہ صرف شاعر بلکہ عظیم فلسفی بھی تھے۔ حضرت علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں سو سال قبل ہی آج کے حالات کا نقشہ کھینچ دیا تھا۔ ان جیسا شاعر صدیوں بعد کسی قوم کو ملتا ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں علامہ اقبال جیسا ولی اللہ کی صفات رکھنے والا شاعر ملا۔ پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا جبکہ اس کی تعبیر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پوری کرکے دکھائی۔علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں، بلکہ عظیم مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔اقبال ایک ایسے مفکر ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف اور متنوع مسائل پر برسوں مسلسل غور وفکر کے بعد اپنے کلام اور نثری مقالہ جات کے ذریعے ایسے پرازحکمت اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔جنہوں نے دنیا کے لوگوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعے مسلم امہ کو خواب غفلت سے جاگنے کا پیغام دیا اور فلسفہ خودی کو اجاگر کیا مگر مغربی مفکرین کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا۔اقبال نے اس دور میں شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا، جب برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں تھے، جب کہ امت مسلمہ کی آنکھیں مغرب کی چمک دمک سے چندھیا چکی تھیں۔ اقبال نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے اپنے اشعار میں مغربی تہذیب پر تنقید کی، تو وہاں کے نقاد نے شاعرمشرق کا پیغام سمجھے بغیر ہی ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔اقبال نے قوم کو غلامی سے چھڑانے کے لیے قرآن کریم سے ہدایت حاصل کی۔ ایک بکھرے ہوئے انبوہ کو قوم میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ کام انبیاء نے کیا مگراللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے یہ توفیق امت محمد ۖ کے علماء کو عطا ہوئی۔ علامہ اقبال نے قرآنِ کریم کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی لیے برطانیہ کی پروردہ بیوروکریسی نے ان کی بے ضرر نظموں کے سوا ان کا معنی خیز کلام عوام تک نہ پہنچنے دیا۔ورنہ پاکستان جن مشکلات اور مصائب سے گزرا وہ اْسے کبھی پیش نہ آتے۔علامہ اقبال مسلمانوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے ایک جگہ لکھتے ہیں۔ اصلاح امت اور مسلمانوں کی بیداری مہم کی تکمیل کے لیے مجھے اپنے تمام کام چھوڑنے پڑے تو انشااللہ چھوڑ دوں گا۔ اور اپنی زندگی کے باقی ایام اس مقصد جلیل کے لیے وقف کردوں گا ہم لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولۖ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
علامہ کہا کرتے تھے کہ اس وقت اسلام کا دشمن سائنسی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ اسلام کا اصل دشمن یورپ کا جغرافیائی جذبہ قومیت ہے۔ قائد اعظم کو ایک خط میں علامہ لکتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریق پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم ازکم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ سالہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہا ہے۔اور میں اب بھی اسے ہی مسلمانوں کی ترقی اور ہندوستان کے امن کا حصول سمجھتا ہوں۔ آپ مزید لکھتے ہیں کہ ڈیئر جناح۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب ان کا جداگانہ وطن ہی ہے۔
٭٭٭