روس کے پہلے تیل بردار جہاز کی آمد
شیئر کریں
خام تیل بردار پہلا روسی جہازگزشتہ روز کراچی پہنچ گیا ہے، روسی خام تیل کا جہاز کراچی پورٹ کی آئل پیئر 2پر تیل ترسیل کرے گا۔ روسی جہاز سمندری طوفان سے پہلے کراچی پورٹ پر پہنچنے میں کامیاب ہوا،183میٹر لمبے روسی جہاز پیور پوائنٹ میں 45? ہزار میٹرک ٹن تیل لدا ہے جبکہ 50 ہزار ٹن کی دوسری کھیپ آئندہ ہفتے آئے گی۔ روسی تیل بردار جہاز کی آمد پر حکومت کے بھونپو کا کردار ادا کرنے والے صحافت کے نام دکانداری کرنے والے ایک بڑے ادارے نے حکومت کے بھونپو کا کردار ادا کرتے ہوئے یہ سرخی جمائی کہ تاریخ رقم ہوگئی،یہ از خود بن جانے والے سرکاری بھونپو اخبارکے کسی کرتا دھرتا کو شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ تاریخ تو اسی وقت رقم ہوگئی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کی کوششوں سے روس کا پہلا جہاز پاکستان اسٹیل ملز کیلئے سازوسامان لے کر کراچی پہنچا تھا،اس وقت اسی اخبار میں اس طرح کی خبریں شائع ہوئی تھیں یاکرائی گئی تھیں کہ پاکستان اپنی اسٹیل کی ضروریات درآمدات کے ذریعے بآسانی پوری کرسکتاہے اس لئے اسٹیل مل کا بکھیڑا پالنے کی کیاضرورت ہے،روس سے تیل بردار جہاز کی آمد پر وزیر اعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ قوم سے کیا ہوا ایک اور وعدہ پورا کردیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود روسی تیل کی خریداری کیلئے بات چیت عمران خان نے شروع کی تھی اور امریکہ کی اسی ناراضگی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار اداکیا۔تاہم آج اگر شہباز شریف اس کاسہرا اپنے سرباندھنے کی کوشش کررہے ہیں تو انھیں اس سے کون روک سکتاہے کیونکہ ابھی تک وہ اس ملک کے سربراہ اور سیاہ وسفید کے مالک ہیں۔شہباز شریف نے روسی تیل بردار جہاز کی آمد کو تبدیلی کا دن قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ ہم ملک کی خوشحالی، معاشی ترقی، انرجی سیکورٹی اور مناسب داموں پر توانائی کی فراہمی کیلئے مناسب وقت پر مناسب قدم اٹھا رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 45 ہزار ٹن کروڈ آئل لانے والا روسی بحری جہاز ”پیور پوائنٹ“ جو 83 میٹر لمبا ہے کو وفاقی وزارت پٹرولیم کی ہدایت پرفوری طور کراچی پیئرز پر لنگر انداز فوری کرادیاگیا ہے۔ روس سے 2لاکھ ٹن کروڈ آئل لیکر آنے والا بحری جہاز سلطنت عمان کی بندرگاہ پر گزشتہ ہفتے پہنچا تھا۔ اس کے بعد 2لاکھ ٹن میں سے خلیج فارس میں پہلے سے موجود بحری جہاز میں 45ہزار ٹن کروڈ آئل ڈی کینڈنگ (De Canding)شفٹ کیا گیا۔ باخبر ذرائع کے مطابق اب روسی جہاز سے 45 ہزار ٹن کروڈ آئل نکال کر ریفائنری لمیٹڈ کراچی اور نیشنل ریفائنری کراچی پہنچا نے کاعمل بھی شروع کردیاگیاہے۔ جہاں اس کروڈ آئل کی 24 گھنٹے میں ٹیسٹنگ کا عمل مکمل ہو گا۔ توقع ہے کہ اگلے 48گھنٹوں میں نیشنل آئل ریفائنری اور پاکستان ریفائنری لمیٹڈ روسی کروڈ آئل کی ریفائننگ کریں گی اور اپنی رپورٹ وزارت پٹرولیم کو دیں گی کہ کتنے فیصد پیٹرول‘ کتنے فیصد ڈیزل‘ کتنے فیصد کیروسین آئل‘ کتنے فیصد جے پی ایٹ‘ کتنے فیصد فرنس آئل اور کتنے فیصد بچومن (تارکول) نکلی ہے۔یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی یہ معلوم ہوسکے گا کہ روس کا یہ تیل پاکستان کو دیگر ممالک کی نسبت کتنا سستا پڑے گا،پاکستان نے 75ڈالر فی بیرل والا کروڈ آئل 55ڈالر فی بیرل میں خریدا ہے۔ اس طرح بظاہریہ روسی کروڈ آئل پاکستان کو 20ڈالر فی بیرل سستا پڑا ہے۔ اس خریداری کی اہم بات یہ ہے جو عمران خان نے اپنے آخری دورہ روس میں طے کردی تھی کہ اس کی قیمت کی ادائیگی ڈالر کی بجائے یو اے ای درہم یا کسی اور متفقہ کرنسی میں کی ہے۔
پاکستان میں اس وقت ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 262 روپے ہے جبکہ ایک لیٹر ڈیزل 253 روپے کا ہے۔ گذشتہ ایک سال میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس سے لوگ پریشانی میں مبتلا ہیں۔گذشتہ سال مئی میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 150 روپے اور ایک لیٹر ڈیزل 144 روپے پر دستیاب تھا۔ اگرچہ موجودہ حکومت کی جانب سے ایک مہینے میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کمی کی گئی ہے تاہم ابھی بھی ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت گذشتہ مالی سال یعنی عمران خان کے دور حکومت کے مقابلے میں 100 روپے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی 38 فیصد کی بلند شرح تک پہنچ چکی ہے۔ملک میں ڈیزل و پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 100 روپے سے زائد کمی ہوئی ہے۔پاکستان ڈیزل و پیٹرول کی مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 80 فیصد سے زائد خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر انحصار کرتا ہے، جو کہ درآمدی بل کا بڑا حصہ بنتا ہے۔گذشتہ سال کے آغاز میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں روس سے خام تیل کی درآمد کا اعلان ہوا اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے روس سے سستے خام تیل کی درآمد کے منصوبے کا اعلان کیا تاہم اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد موجودہ اتحادی حکومت کے ابتدائی دنوں میں اس پر خاموشی طاری رہی اور ہمارے جادوگر وزیر خزانہ باقاعدگی کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے رہے اس صورت حال پر پورے ملک میں مچنے والی ہاہاکار اور خود پی ڈی ایم کی صفوں سے اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کی وجہ سے 2022 کی آخری سہ ماہی میں روس سے سستا پیٹرول خریدنے کے عمران خان کے منصوبے پر دوبارہ سے کام شروع ہوااور پاکستان نے چند ہفتے پہلے روس سے خام تیل کی درآمد کا پہلا آرڈر دیا جو اب پاکستان پہنچ چکا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ محدود مقدار میں روسی تیل کی درآمد سے کیا عام صارف کے لیے ڈیزل و پیٹرول کی قیمت بھی کم ہو گی؟ ماہرین اور روسی خام تیل درآمد کرنے والی ریفائنری کے حکام کے مطابق فوری طور پر ایسا ممکن نہیں ہوسکتاکہ پاکستان میں صارفین کے لیے قیمتیں کم ہو سکیں۔ تو اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روس کے خام تیل کی پہلی شپمنٹ ملک میں کام کرنے والی پاکستان ریفائنری لمیٹڈ میں پہنچنے کے بعد اس خام تیل کو ریفائن کیا جائے گا۔پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسرکا کہناہے کہ پہلا کارگو ایک لاکھ ٹن خام تیل کا ہے جو7 لاکھ 35 ہزار بیرل بنتا ہے جو پاکستان کی تین دن کی پیٹرول کی ضرورت بھی پوری نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے بھی گذشتہ دنوں کراچی میں اس نمائندے کے سوال کے جواب میں روسی خام تیل کی قیمت کو بتانے سے گریز کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ روسی خام تیل کی کمرشل ڈیل پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔کستان ریفائنرپہنچنے والاپہلا کارگو پا7 لاکھ بیرل سے کچھ زائد کا ہے مگر ملک میں روزانہ کی بنیاد پر خام تیل کی کھپت3 لاکھ بیرل ہے۔اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو فوری طور پر اس روسی تیل کی درآمد سے ایک عام صارف کے لیے پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کم نہیں ہو گی۔انھوں نے کہا کہ یہ پہلا کارگو ’ٹرائل کارگو‘ ہے۔ ’اس خام تیل کو ریفائن کر کے پہلے یہ معلوم کیا جائے گا کہ اس سے پیٹرولیم مصنوعات یعنی ڈیزل، پیٹرول اور فرنس آئل کی کتنی پیداوار ہو گی۔ پہلا کارگو فقط ایک ریفائنری کا ہے اور اس سے یہ اس بات کی توقع کرنا کہ قیمت میں کمی ہو جائے گی صحیح نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں کمی اس وقت ہو گی جب روس سے خام تیل کی درآمد مستقل بنیادوں پر طویل مدت کے لیے ہو گی اور ساری ریفائنریوں میں یہ خام تیل آرہا ہو۔پاکستان میں قیمتوں میں کمی اس وقت آسکتی ہے جب ہم روس سے ڈیزل و پیٹرول کی درآمد شروع کریں گے۔اس وقت روسی تیل کا جو پہلا کارگو پاکستانپہنچاہے اس سے تو ویسے بھی فرنس آئل زیادہ بنایا جائے گا اور ڈیزل اور پیٹرول کم بنے گاکونکہ کہ اس روسی تیل سے فرنس آئل کی مقدار زیادہ نکلے گی۔ روس سے آنے والے خام تیل کو مشرق وسطیٰ سے آنے والے خام تیل کے ساتھ ملا کے اس سے پیٹرولیم مصنوعات تیار کی جائیں گی۔ پاکستان کے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے اب دعویٰ کیاہے کہ روس سے تیل کی آمد کے بعد پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ہوگی حالانک گذشتہ دنوں انھوں نے بھی قیمتوں میں کمی کی توقعات کو مسترد کیاتھا اور یہ اعتراف کیاتھا کہ فوری طور پر روس سے تیل کی درآمد سے مقامی طور پر ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ معاشی امور کے ماہرین بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ کہا کہ ابھی پہلے کنسائمنٹ سے صارفین کے لیے پیٹرولیم قیمتیں کم نہیں ہونے ہوسکتیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور مستقبل میں بہت بڑی مقدار میں اگر یہ خام تیل درآمد کیا جا سکتا ہے تو پھر شاید یہ ممکن ہو پائے۔ تاہم روس سے درآمد کئے گئے اس تیل کی قیمت کے معلوم ہونے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ یہ کتنا معاشی طور پر فائدہ مند ثابت ہوگا۔روس سے آنے والے خام تیل کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی ریفائنریاں روس سے آنے والے خام تیل کو پراسس کرنے کی صلاحیت تو رکھتی ہیں۔ تاہم اطلاعات کے مطابق روسی خام تیل سے زیادہ فرنس آئل بنے گا کیونکہ اس تیل کی تکنیکی فزیبلیٹی کے مطابق اس سے فرنس آئل زیادہ اور ڈیزل اور پیٹرول کم بنتے ہیں۔ اس خام تیل کو پیٹرولیم مصنوعات میں بدلنے کے لیے لاگت بھی زیادہ آئے گی۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں کام کرنے والی ریفائنریاں اس سے زیادہ ڈیزل پیدا کر کے اسے مقامی ضرورت کے علاوہ برآمد بھی کر رہی ہیں۔روس سے درآمد کردہ خام تیل سے فرنس آئل کی زیادہ پیداوار کی بات اس اعتبار سے درست ہے، کہ پاکستانی ریفائنریوں کی ساخت اور ان کی ٹیکنالوجی بھارت سے مختلف ہے۔بھارت کی ریفائنریاں زیادہ جدید ٹیکنالوجی کی حامل ہیں اور وہاں کی ریفائنریاں ’ڈیپ کنورژن‘ ریفائنریاں ہیں جو خام تیل سے ڈیزل اور پیٹرول زیادہ نکالتی ہیں اور فرنس آئل کم اس کے مقابلے میں پاکستان کی ریفائنریاں پُرانی ٹیکنالوجی کی حامل ہیں، جو خام تیل سے فرنس آئل زیادہ پیدا کرتی ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی ریفائنریوں کو اپ گریڈ کیا جائے تو وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کے لیے پالیسی تیار ہو چکی ہے تاہم بدقسمتی سے اس کی منظوری ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ روس کی جانب سے بھارت کو اپریل کے مہینے میں روزانہ 16 لاکھ بیرل سے زائد کی سپلائی کی گئی اور روس سے خریدے گئے تیل کا بھارت کی تیل مصنوعات کی درآمدات میں حصہ40 فیصد تک ہے۔پاکستان میں اس وقت5 ریفائنریاں پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار کر کے مارکیٹ میں سپلائی کر رہی ہیں۔ تاہم ان مقامی ریفائنریوں کی پیداوار ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی مقامی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے پاکستان پیٹرولیم مصنوعات بھی درآمد کرتا ہے۔پاکستان میں تیل کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں اور ریفائنریوں کی نمائندہ تنظیم آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ناظر زیدی کاکہناہے کہ پاکستان میں خام تیل کی سالانہ کھپت11 ملین ٹن ہے، جس
میں 3ملین ٹن خام تیل مقامی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ باقی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت سے درآمد کیا جاتا ہے۔ مشرق وسطی سے آنے والا خام تیل 3-4 قسم کا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے اس سال 4 ارب ڈالر سے زائد کا خام تیل درآمد کیا۔ اس کے ساتھ پاکستان نے 6 ارب ڈالر سے زائد کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کیں جن میں ڈیزل اور پیٹرول شامل ہیں۔اب دیکھنایہ ہے کہ روس سے درآمد کردہ تیل سے پاکستان کو کتنا فائدہ پہنچتاہے اور حکومت اس میں سے کتنا فائدہ عوام کو منتقل کرنے پر تیار ہوتی ہے۔
٭٭٭