عیدگاہ مرادآبادکا سانحہ زخم پھر ہرے ہوگئے!
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغربی یوپی کا شہر مرادآباد جہاں اپنی پیتل صنعت کے لیے پوری دنیا میں مشہورہے تو وہیں اس شہرسے عیدگاہ قتل عام کے کچھ ایسے زخم بھی وابستہ ہیں جو 43 برس کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود مندمل نہیں ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اترپردیش کی یوگی سرکار نے اعلان کیا ہے کہ وہ 1980 کے مرادآباد فساد کی تحقیقاتی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرے گی۔ اس اعلان کے بعدوہ تمام زخم ہرے ہوگئے ہیں جو اس وحشیانہ قتل وغارتگری سے وابستہ ہیں۔ سرکار اسے بھلے ہی فساد کا نام دے کر اس کی وحشت کو کم کرنے کی کوشش کرے لیکن 13؍اگست 1980کو مرادآباد کی عیدگاہ میں جو کچھ ہوا وہ فساد ہرگز نہیں تھا بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف پولیس ایکشن تھا جس کی زد میں سیکڑوں بے گناہ انسانوں کی جانیں آئی تھیں۔اس کے بعدمرادآباد کے باشندوں کومہینوں کرفیو کاعذاب جھیلنا پڑا تھا۔
13؍اگست1980کو عید الفطرکی نماز کے دوران مرادآباد کی عیدگاہ میں جو کچھ ہواتھا، اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ یہ سانحہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کی یادیں آج بھی ان ہزاروں انسانوں کے وجود کو لرزا دیتی ہیں، جنھوں نے تاریخ کے اس بدترین قتل عام کواپنے وجود پر جھیلا تھا۔ایسی قتل وغارتگری اور ایسا ظلم وستم شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ اس کا ثبوت مرادآباد کی عیدگاہ میں برسنے والی پی اے سی کی گولیاں ہی نہیں تھیں بلکہ شہر میں کرفیو کے دوران بے گناہ مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑتوڑے گئے ، وہ بھی اپنی مثال آپ تھے ۔ آج جب 43 سال بعد میں اس عنوان پر کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو میرے وجود پر لرزہ طاری ہے اور الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔اترپردیش سرکار کو نہ جانے کیا سوجھی ہے کہ وہ‘مرادآباد فساد کی تحقیقاتی رپورٹ’ اسمبلی میں پیش کرنے جارہی ہے ، لیکن اس کے مندرجات کو عام نہیں کیا جائے گا۔ مرادآباد کی نسل کشی کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ایم پی سکسینہ کی سربراہی میں جویک نفری تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، اس نے 20/نومبر1983کو اپنی رپورٹ اس وقت کی صوبائی حکومتکو پیش کردی تھی، جو چالیس برسوں سے سرکاری ریکارڈ میں خاک پھانک رہی ہے ۔ اب چالیس سال بعد اسے اسمبلی میں پیش کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی ہے ، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔وہ بھی اس اعلان کے ساتھ کہ اس رپورٹ میں جو کچھ لکھا ہے اسے عام نہیں کیا جائے گا۔ یوگی سرکار اس رپورٹ کو بھلے ہی منظرعام پر نہ لائے ، لیکن اس کا نچوڑ یہ ہے کہ13/اگست 1980کو عیدگاہ میں افراتفری پھیلانے کا کام مقامی لیڈر شمیم احمد خاں اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا تھا۔انھوں نے یہ کام انتظامیہ کو بدنام کرنے اور بالمیکیوں و ہندو پنجابیوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے کیا تھاتاکہ انھیں مقبولیت حاصل ہو۔سکسینہ کمیشن کی رپورٹ میں نہ تو پولیس اور پی اے سی کے مظالم کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی جانبداریوں کا کوئی حوالہ۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ اس رپورٹ کو ابھی مزید خاک ہی پھانکنی چاہیے تا وقتیکہ اسے دیمک اپنی غذا نہ بنالے ۔مرحوم ڈاکٹر شمیم احمد خاں مرادآباد میں مسلم لیگ کے علمبردار تھے ۔بعد کو وہ جنتادل کے ٹکٹ پرشہر سے ممبراسمبلی چنے گئے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سکسینہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انھیں قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی ہے اور ان حقائق کو نظرانداز کردیا ہے جن کی وجہ سے مرادآباد کی عیدگاہ جلیاں والا باغ بنی تھی۔
عیدالفطرکی نمازکے دوران مرادآباد کی عیدگاہ میں نجس جانور کیسے اور کیونکر داخل ہوا یہ بات ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے ۔ اس جنگلی جانور نے نمازیوں کے کپڑے ہی خراب نہیں کئے بلکہ پوری نماز ہی خراب کی جس سے مسلمان بے انتہا مشتعل ہوگئے ۔ اس وقت عیدگاہ میں 70ہزار سے زیادہ نمازیوں کا ہجوم تھا اور ہمیشہ کی طرح لوگ اپنے کمسن بچوں کو ساتھ لے کر آئے تھے ۔ بپھرے ہوئے مسلمانوں نے ان بچوں کی بھی پروا نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب پی اے سی کے جوانوں نے اندھادھند فائرنگ شروع کی تو بے تحاشہ بھگدڑ مچ گئی اور اس کی زد میں بڑوں کے ساتھ ساتھ سیکڑوں بچے بھی آئے ۔ اس کا ثبوت عیدگاہ اور اس کے آس پاس بکھرے ہوئے جوتے چپل، ٹوپیاں اور جاء نمازیں ہی نہیں تھیں بلکہ خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے بھی تھے ۔ سرکاری اعداد وشمارکے مطابق عیدگاہ میں شہید ہونے والوں کا ہندسہ 200کو پار نہیں کرسکا ہے ، لیکن غیرسرکاری ذرائع نے یہ تعداد کئی گنا زیادہ بتائی ہے ۔
پی اے سی نے عیدگاہ میں اندھا دھند فائرنگ ہی نہیں کی تھی بلکہ اس کے بعد مسلم علاقوں میں کرفیو نافذ کرکے درندگی اور بربر یت کا تانڈو کیا۔ میرا گھر عیدگاہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پرکٹارشہید علاقہ میں چاندوالی مسجد کے سامنے تھا۔میں نے اپنی آنکھوں سے جو مناظر دیکھے ہیں، انھیں بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔مجھے یاد ہے کہ گلی کوچوں میں اپنی جان بچاکر چھپے ہوئے لوگ جب اپنے گھروں تک پہنچنے کے لیے سڑک پار کرتے تھے تو پی اے سی کے جوان ان کی تاک میں بیٹھے رہتے تھے ۔ گل شہید اور کٹار شہید کے چوراہوں سے وہ جان بچاکر بھاگنے والوں کو گولی کا نشانہ بناتے اور پھر ان کے قریب جاکر مزید گولیاں ان کے سینوں میں داغتے ۔ اس کے بعد ان کی لاش کو الٹا کرکے سڑک پر دور تک گھسیٹتے تھے تاکہ ان کے چہرے کی شناخت مٹ جائے ۔ گل شہید چوراہے پر لکڑی کی ایک ٹال تھی جہاں رات گئے ان لاشوں کو جلایا جاتا تھا۔ رات میں روزانہ انسانی گوشت کے جلنے کی بو ہمارے گھر تک آتی تھی۔کتنے ہی خاندان ایسے ہیں جن کے پیاروں کو تلاشی کے نام پر ان کے گھروں سے اٹھایا گیا اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔گلشہید پولیس چوکی کے پیچھے حاجی انوار کے خاندان کے چار افراد کو تلاشی کے بہانے اغواء کیا گیا تھا جن کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے ۔
13؍اگست 1980کے دودن بعد یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مرادآباد کے سانحہ کا ذکر کیا تھا۔ بعد کو مرادآباد کے حالات کا جائزہ لینے وہاں گئی بھی تھیں۔ مظلوموں نے دہاڑیں مارمار کر انھیں اپنی بپتائیں سنائی تھیں، لیکن وہ انھیں انصاف نہیں دلاسکیں۔ آنجہانی اندرا گاندھی نے اپنی لال قلعہ کی تقریر میں کہا تھا کہ مرادآباد کے واقعہ نے ہمارے ملک کو چوٹ پہنچائی ہے ۔ جس کسی نے بھی وہاں گڑبڑ کی ہے خواہ وہ سرکاری ملازم ہو یا عام شہری اسے سخت سزا دی جائے گی۔ مرادآباد کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا یہ وعدہ آج بھی وعدہ فردا ہی ہے ۔ کسی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ مجرموں کو عبرتناک سزائیں ملیں۔ خود یوگی سرکار بھی اس کی تحقیقاتی رپورٹ صرف زخموں کو ہرا کرنے کے لیے اسمبلی میں پیش کرنا چاہتی ہے ۔اس وقت کے مرکزی وزیرمملکت داخلہ یوگیندر مکوانہ نے مرادآباد کے فساد کے لیے آرایس ایس کو موردالزام قراردیا تھا۔ لیکن اس موقع پر آرایس ایس نوازمیڈیا نے اس کی پوری ذمہ داری مسلمانوں کے سرڈالی تھی اور ان پر ایک اور پاکستان بنانے کی سازش رچنے کا الزام عائد کیا تھا۔ دہلی روڈ پر زیرتعمیر مدرسہ حیات العلوم کی عمارت کو پاکستان بنانے کی کوششوں کے طور پر دیکھا گیا۔ انگریزی اخبار ‘ٹائمز آف انڈیا’ کی رپورٹنگ اس معاملے میں خاصی گمراہ کن تھی۔مرادآباد سانحہ کے بعد پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں مسلم لیگ کے رکن جی ایم بنات والا نے مرادآباد کے تعلق سیمذمتی قرارداد پیش کی تھی۔ اس موقع پر فارورڈ بلاک کے ممبر چتو بسو نے الزام عائد کیا تھا کہ مرادآباد کا فساد مسلمانوں کے خلاف سرکاری تشدد تھا۔ اس موقع پر یوپی اسمبلی میں بھی خاصا ہنگامہ ہوا تھا۔جنتا پارٹی کے ممبراسمبلی راجندر سنگھ نے مرادآباد کی عیدگاہ کا موازنہ جلیاں والا باغ سے کیا تھا۔ اپنی جوابی تقریر میں وزیراعلیٰ وی پی سنگھ نے کہا تھا کہمیں یہاں کوئی وضاحت پیش کرنے کے لیے نہیں کھڑا ہوا ہوں بلکہ میں یہاں سزا پانے کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔
افسوس کہ آج تک مرادآباد قتل عام کے ایک بھی مجرم کو معمولی سزا بھی نہیں ملی ہے اور نہ ہی معاوضہ کے نام پر کسی کو پھوٹی کوڑی۔ سیکڑوں بے گناہ انسانوں کا خون کس کی گردن پر ہے ، کسی کو نہیں معلوم۔سکسینہ کمیشن کی رپورٹ اس قتل عام کی لیپا پوتی سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔
٭٭٭