مسائل کے ذمہ دار موجودہ حکمران ہیں
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
ملک اس وقت معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانوں میں یوںگھرا ہوا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔معیشت کو ٹھیک کرنے کے دعوے کرنے والوں نے بے تحاشا قرضہ لینے کے باوجود بھی ملکی معیشت بہتر نہیں ہو سکی جو موجودہ حکمرانوں کی نااہلی ہے۔اسی ضمن میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ ملک کی کشتی بھنور میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ موجودہ اور سابق حکمران اس کے ذمہ دار ہیں۔ سیاسی، معاشی اور آئینی بحران کے اضافے سے ملک مشکلات سے نکلنے کی بجائے مزید مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔ ڈالر پاکستانی روپے کی اور حکومت نے عوام کی بے قدری کی انتہا کر دی۔
یہ حقیقت ہے کہ لوگ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے حکمرانوں سے اکتا چکے ہیں کیونکہ گزشتہ ایک سال میں ان کی مشکلات میں بے تحاشہ اضا فہ ہو گیاہے۔ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے بعد حکمران عوام سے کئے گئے وعدے بھول گئے ہیں۔ اگر ایک زرعی ملک میں لوگ آٹے کو ترس رہے ہوں تو اس کے باقی حالات کا تصور کرنا ہی خوفناک ہے۔ کئی دہائیوں سے جاری کشکول مشن نے ملک پر تباہی اور بدحالی کی مہر لگا دی۔ اس وقت خطے میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں ہے، غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی عوام کو پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا تحفہ ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے ان پارٹیوں نے جتنے وعدے، اعلانات کیے تھے عملی طور پر حکومت میں آنے کے بعد سب اس کے الٹ ہوا ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام ف نے مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کیے لیکن حکومت ملنے کے بعد انہوں نے بھی مہنگائی میں کمی لانے کی بجائے اضافے کا تاریخی ریکارڈ بنا دیا ہے۔جناب سراج الحق کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اللہ کے فضل سے اس کشکول کو توڑ کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ ہمارے پاس وہ وژن اور پروگرام موجود ہے جس سے ہر گھر میں خوشحالی آ سکتی ہے، جس پروگرام سے غریب اور امیر دونوں کو فائدہ ہو گا ہر طبقے کی پریشانی میں کمی آئے گی۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی جدوجہد کی ہے اور آج بھی ہمارے سینیٹر مشتاق احمد خان امریکہ میں اس حوالے سے کوشش کر رہے ہیں۔
موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کا بنیادی نظریہ قرضہ اور کرپشن تک محدود ہے۔کرپشن میں کمی آئی نہ مہنگائی کا زور ٹوٹا۔ ڈالر کی اڑان جاری ہے۔ زمانہ بدل گیا، دنیا ترقی کر رہی ہے اور پاکستان میں حکمرانوں کی نااہلی، بدانتظامی اور ذاتی مفادات کی لڑائی کی وجہ سے ریورس گیئر لگا ہوا ہے۔ ایک طرف مسلح دہشت گردی اور دوسری جانب سیاسی انتہا پسندی ہے۔ کرپشن اور چوری بازاری میں ہر آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری خزانے میں خوردبرد کی نت نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں۔ صاحب اختیارات وسیع پیمانے پر بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ اس تمام صورت حال میں سب سے خوف ناک امر یہ ہے کہ عدالتوں پر بھی قوم کا اعتماد ختم ہو چکا۔ قانون کی حکمرانی کا لفظ ڈکشنری تک ہی رہ گیا۔ احتساب کے ادارے خود احتساب کے قابل ہیں۔
تمام عالمی ادارے معیشت کیلئے نئے خطرات کا بگل بجا رہے ہیں مگر حکمران سب اچھا کی پالیسی پر گامزن اور حقائق کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور فقر و فاقہ کے سیلاب کے بیچ اشرافیہ کے خزانوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مافیاز کی سیاست نے معاشرے کو تباہ کر دیا وکلا ء قانون کی حکمرانی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔لائیرز کمیونٹی نے ملک میں جمہوریت کے استحکام اور عدلیہ کی آزادی کیلئے بے شمار قربانیاں دیں، مگر بدقسمتی سے تاحال وہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے جس کی خاطر پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ حکومت غیرترقیاتی اخراجات اور کرپشن کم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ پی ڈی ایم کے چراغوں میں تیل نہیں، 13پارٹیوں کی حکومت کا رخ مختلف سمتوں کی جانب ہے۔ ملک کو اندھیروںمیں دھکیل دیا گیا۔ کسی معاشی پلان کی بجائے آئی ایم ایف پر تکیہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے ایک سال میں تقریباً 15سو ارب کا ریکارڈ قرضہ لیا جو کہ یومیہ 41ارب بنتا ہے۔ حکمران ہمت کریں اور آئی ایم ایف سے جان چھڑائیں۔ قوم کو استعمار کی تابعداری منظور نہیں، آنے والی نسلوں کو مقروض کر دیا گیا۔ خودانحصاری کی جانب جانا پڑے گا۔
حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اس نظام کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ استحصالی نظام نے ملک تباہ کر دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں کسان کی نمائندگی جاگیردار، مزدور کی صنعت کار اورغریب کی کرپٹ سرمایہ دار کرتا ہے۔ عام پڑھا لکھا آدمی اور نوجوان اسمبلیوںمیں جائیں گے تو تبدیلی آئے گی۔ حکمران جماعتوں نے جھوٹے اور دلفریب نعروں سے قوم کو دھوکا دیا، ان کو مزید آزمایا گیا تو مزید تباہی آئے گی۔ یہ لوگ آئندہ 100سال بھی حکمران رہیں تو ملک اور قوم کی حالت نہیں بدل سکتی۔ عوام نے اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ موجودہ کابینہ میںاتنے افراد ہیں کہ شاید وزیراعظم کو سب کے نام بھی معلوم نہ ہوں۔ حکومت وعدوں کے باوجود سودی نظام کا خاتمہ نہیں کر سکی۔عوامی مطالبہ ہے کہ بجٹ میں سود سے جان چھڑائی جائے۔ ٹیکسز غریب کی بجائے آمدن پر لگائے جائیں۔ چھوٹے کسانوں کی ترقی پر توجہ دینا ہو گی۔ جاگیرداروں کی زرعی آمدن پر ٹیکس ہونا چاہیے۔ حکومت بجٹ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کم از کم 50فیصد کمی کرے۔ پٹرول، بجلی اور گیس پر سبسڈی بحال کی جائے۔ بجٹ میں عوام کو ریلیف نہ ملا تو لوگ سڑکوں پر ہوں گے۔