مودی کی اکھنڈ بھارت سوچ
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت کی پارلیمنٹ کی دیوار پر اکھنڈ بھارت کے نقشہ نے نریندر مودی اوران کی جماعت بی جے پی کی انتہا پسندی کو دنیا پر منکشف کر دیا ہے۔ عمارت پر قدیم ہندوستانی سوچ کے اثر کو ظاہر کرنے والی دیوار پر منظر کشی نے اکھنڈ بھارت کے عزم کی نمائندگی کا اعادہ کیاہے جسے آر ایس ایس نے "ثقافتی تصور ” کے طور پر بیان کیا ہے۔نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح نریندر مودی نے 28 مئی کو کیا تھاجو ماضی کی اہم ریاستوں اور شہروں کو نشان اور موجودہ پاکستان میں اس وقت کے ٹیکسلا میں قدیم ہندوستان کے اثر کو ظاہر کرتا ہے۔ بی جے پی کی کرناٹک یونٹ نے نئے پارلیمنٹ ہاس کے اندر آرٹ ورکس کی تصویریں شیئر کیں، جن میں قدیم ہندوستان، چانکیہ، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور بی آر امبیڈکر اور ملک کے ثقافتی تنوع کے نقشے شامل ہیں۔
انتہاپسند ہندووں کی تنظیم آر ایس ایس سمجھتی ہے کہ اکھنڈ بھارت تصور سے مراد غیر منقسم ہندوستان ہے جس کی جغرافیائی وسعت قدیم زمانے میں بہت وسیع تھی یعنی موجودہ افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، میانمار اور تھائی لینڈ اس میں شامل تھے۔ مودی سرکار اب بضد ہے کہ اکھنڈ بھارت کے تصور کوسیاسی طوپرنہیں بلکہ موجودہ دور میں، آزادی کے وقت مذہبی خطوط پر ہندوستان کی تقسیم کو دیکھتے ہوئے، ثقافتی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نئی پارلیمنٹ میں اکھنڈ بھارت ہمارے طاقتور اور خود انحصار ہندوستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارا خیال قدیم زمانے میں ہندوستانی فکر کے اثر کو ظاہر کرنا تھا۔ یہ شمال مغربی خطے میں موجودہ افغانستان سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمانہ قدیم سے عہد وسطیٰ اور عہد حاضر تک بھارت کا کوئی متعین نقشہ ہی نہیں تھا۔ اگر اکھنڈ بھارت کی تصویر میں نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان کو شامل کیا گیا ہے، تو اس پر اعتراض بالکل درست اور جائز ہے۔یہ تمام اب آزاد ممالک ہیں اور آج کی دنیا میں کسی بھی ملک کو سب سے پہلے دوسرے ملک کی خود مختاری تسلیم کرنا پڑتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی سرحدوں کو تسلیم کیا جائے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے ملک کے علاقے کو اپنا علاقہ دکھایا جائے۔ یہ غلط طریقہ ہے اور اس پر اعتراض بالکل جائز ہے۔ماضی میں بھارت کا کوئی طے شدہ اور مسلمہ نقشہ نہیں تھا اور اس میں بارہا تبدیلیاں ہوئیں۔ اگر یہ نقشہ خارجہ پالیسی سے ٹکراتا ہے، تو اس نقشے کو درست نہیں کہا جا سکتا۔حال سے نگاہیں چرانے کے لیے اکثر ماضی اور روایات کو ملا کر ایک بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی وزراء آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے نظریے کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے حکمران جماعت بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس نے ایک ‘اکھنڈ بھارت’ کا راگ زور شور سے الاپنا شروع کر دیا ہے ۔آر ایس ایس کے مطابق اکھنڈ بھارت کی سرحدیں افغانستان سے لے کر میانمار اور تبت سے لے کر سری لنکا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آر ایس ایس سے وابستہ ایک اشاعتی ادارے نے 2020میں ایک نقشہ شائع کیا تھا جس میں پڑوسی ممالک اور ان کے شہروں کے ہندو نام لکھے گئے تھے۔اس نقشے میں مثلا افغانستان کو ‘اپگنتھان’، کابل کو’کوبھا نگر’ ، پشاور کو ‘پشپ پور’، ملتان کو ‘مول ستھان’، تبت کو ‘تری وستھاپ’، سری لنکا کو ‘سنگھل دویپ’ اور میانمار کو ‘برہم دیش’ لکھا گیا تھا۔بھارتی پارلیمان کی نئی عمار ت میں ‘اکھنڈ بھارت’ کا نقشہ سیاسی اور سفارتی کشیدگی کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان اور دو سابق نیپالی وزرائے اعظم کے بعد اب بنگلہ دیشی رہنما بھی اس نقشے کے ‘درپردہ مقاصد’ پر ناراض ہیں۔پاکستان نے بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں اکھنڈ بھارت کے نقشے کی تصویر آویزاں کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا، ”اکھنڈ بھارت کا بیجا دعویٰ ایک نظرثانی شدہ اور توسیع پسندانہ ذہنیت کا مظہر ہے، جو نہ صرف بھارت کے ہمسایہ ممالک بلکہ اس کی اپنی مذہبی اقلیتوں کی شناخت اور ثقافت کو بھی مسخر کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ تسلط پسندی اور توسیع پسندانہ عزائم کو پروان چڑھانے کے بجائے بھارت کو ایک پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیا کے لیے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جملہ تنازعات کو حل کرنا چاہیے۔
نیپال نے گوکہ اس بارے میں حکومتی سطح پر فی الحال کوئی بیان نہیں دیا تاہم دو سابق وزرائے اعظم سمیت متعدد نیپالی سیاست دانو ں نے اسے ‘تسلط پسندانہ عزائم اور توسیع پسندانہ ذہنیت’ کی مثال قرار دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم بابو رام بھٹائی رائی نے یہ نقشہ آویزاں کیے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کے درپردہ مقاصد خود بخود واضح ہو جاتے ہیں۔اس نئی پیش رفت سے پہلے سے ہی دونوں قریب ترین پڑوسیوں کے درمیان کشیدہ باہمی تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ اس سے غیر ضروری اور نقصان دہ سفارتی تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔ بھارتی سیاسی قیادت کو بتانا چاہیے کہ اس تصویرکے پیچھے اس کا اصل مقصد کیا ہے۔آر ایس ایس کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ ایک دن یہ سب خطے بھارت کا حصہ بن جائیں گے۔ لوگوں میں خیر سگالی اور باہم ایک دوسرے کے قریب آنے سے ایک اکھنڈ بھارت قائم ہو جائے گا۔ دراصل آج جب اکھنڈ بھارت کی بات کہی جاتی ہے، تو اس میں مذہب واضح طور پر نظر آتا ہے۔اس اصطلاح کے تصور میں ہی کہیں نہ کہیں ہندو اور ہندتوا کے تصورات جڑے ہوئے ہیں اور یہ کافی گہرائی تک پیوست ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔