میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فنافی الرسول کامقام اورسیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ

فنافی الرسول کامقام اورسیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۴ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

غلام مصطفی رفیق
صدیق اکبررضی اللہ عنہ امیرالمومنین ہیں،بلافصل خلیفة رسول اللہ ہیں،اہل سنت کااس پراجماع ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سب سے افضل جناب صدیق اکبررضی اللہ عنہ ہیں،آپ بلاتوقف وتامل سرکاردوعام صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے،ساری زندگی سفروحضرمیں نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ رہے ۔اپناسب کچھ اپنے محبوب پرلٹادیا،روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جب اسلام میں داخل ہوئے تواس وقت وہ قریش میں بڑے ہی مالدارتھے،اوران کاشماراہل مکہ کے بڑے تاجروں میں ہوتاتھا،اسلام لانے کے وقت چالیس ہزاردرہم یادینارکے مالک تھے،سب اسلام کی راہ میں خرچ کرڈالااورخلیفہ ہونے کے بعدخودانہوں نے اپناوظیفہ مقررفرمایاوہ بھی صرف دودرہم یومیہ تھا ۔سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی نسبت اورمحبت کی کوئی نظیرنہیں ملتی،سب کچھ آپ کی ذات پرلٹاکربھی بے قراررہتے،اس لیے الصادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے زیادہ اپنے مال وجان سے مجھ پراحسان کرنے والاصرف ابوبکرصدیق ہے اورآپ علیہ الصلوة والسلام نے یہ بھی فرمایاکہ: دنیامیں جس کسی نے بھی مجھ پراحسان کیاہے میں نے اس کابدلہ دے دیااوراس کے احسان کو اتار دیا مگر ابوبکر کا احسان!کہ اس کومیں نہیں اتارسکتا،اس کابدلہ بس اللہ ہی ان کوقیامت کے روزاداکرے گا۔
مقام نبوت کے بعدمقام صدیقیت سب سے افضل ہے اورا س کے سرخیل سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ ہیں،صدیق اکبررضی اللہ عنہ جملہ فضائل وشمائل حسنہ کامجموعہ اورصداقت وامانت کاپیکرتھے ۔اورحقیقت یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام صفات وکمالات کامظہراورنمونہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ تھے،صفات نبوی کاپرتَواورعکس تھے۔اوراتنی قوی نسبت اورایسامضبوط اتحادتھاکہ جوصفات پیغمبرکی گنوائی گئی ہیں وہی صفات ابوبکررضی اللہ عنہ کی بھی تسلیم کی گئی ہیں،اس نسبت اتحادی پربے شماردلائل موجوداورلاتعدادواقعات شاہدہیں۔صدیق اکبررضی اللہ عنہ کوفنافی الرسول کامقام ورتبہ حاصل تھا۔ طوالت کے خوف سے ذیل میں صرف دوواقعات درج کیے جاتے ہیں ،ان سے قارئین خوداندازہ لگاسکتے ہیں کہ صحبت رسول نے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کوکس مقام تک پہنچایادیاتھااورکس طرح رفیق اپنے محبوب کی صفات کانمونہ بن گئے تھے کہ جس کے اپنے اورغیردونوں معترف تھے۔
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پرجب پہلی وحی نازل ہوئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھرتشریف لائے ،اورحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تمام واقعہ بیان کرکے فرمایاکہ: مجھے اپنی جان کاخطرہ ہے (چونکہ وحی اورفرشتے کے انواروتجلیات کا حضورکی بشریت پردفعةً نزول اوروُرودہوااس لیے وحی کی عظمت اورجلال سے آپ کویہ خیال ہواکہ اگروحی کی یہی شدت رہی تو عجب نہیں کہ میری بشریت وحی کے اس ثقل اوربوجھ کو نہ برداشت کرسکے یابارنبوت سے مغلوب ہوکرفناہوجائے(سیرة المصطفی)حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے جن الفاظ سے آپ کوتسلی دی،خراج تحسین پیش کیاوہ مختصرالفاظ آبِ زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔بخاری ومسلم شریف کی روایت میں منقول ان الفاظ کاترجمہ یہ ہے:”آپ کوبشارت ہو،آپ ہرگزنہ ڈریے،خداکی قسم!اللہ آپ کوکبھی رسوانہ کرے گا،آپ توصلہ رحمی کرتے ہیں،آپ کی صلہ رحمی بالکل محقق ہے،ہمیشہ آپ سچ بولتے ہیں ،لوگوں کے بوجھ کواٹھاتے ہیں ،یعنی دوسروں کے قرضے اپنے سررکھتے ہیں ،اورناداروں کی خبرگیری فرماتے ہیں،امین ہیں لوگوں کی امانتیں ادا کرتے ہیں ،مہمانوں کی ضیافت کاحق اداکرتے ہیں ،حق بجانب امورمیں آپ ہمیشہ امین اورمددگاررہتے ہیں“۔خلاصہ یہ ہے کہ جوشخص ایسے محاسن اورکمالات اورایسے محامداورپاکیزہ صفات اورایسے اخلاق وشمائل اورایسے معانی اورفضائل کامخزن اورمعدن ہو اس کی رسوائی ناممکن ہے ،وہ نہ دنیامیں رسواہوسکتاہے نہ آخرت میں ،حق تعالیٰ جس کو اپنی رحمت سے یہ محاسن اورکمالات عطافرماتے ہیں اس کو ہربلا اورہرآفت سے بھی محفوظ رکھتے ہیں ۔ایک طرف حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی زبان مبارک سے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے متعلق مذکورہ بالاصفات کو مدنظر رکھیے اوردوسری طرف یہ واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ شعب ابی طالب میں محصوری کے زمانہ میں جناب صدیق اکبررضی اللہ عنہ بھی سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے حبشہ کی جانب ہجرت کی نیت سے نکلے،جب مقام برک الغمادتک پہنچے توقبیلہ قارہ کے سردارابن دغنہ سے ملاقات ہوئی ،ابن دغنہ نے پوچھااے ابوبکر!کہاں کاقصدہے؟ابوبکرنے کہامیری قوم نے مجھے نکال دیاہے،چاہتاہوں کہ خداکی زمین میں سیاحت کروں اوراپنے رب کی عبادت کروں۔ابن دغنہ نے کہا:”اے ابوبکر!تم جیساآدمی نہ نکلتاہے اورنہ نکالاجاتاہے ،تم ناداروں کے لیے سامان مہیاکرتے ہو ،صلہ رحمی کرتے ہو،لوگوں کے بوجھ (قرضہ وتاوان) اٹھاتے ہو،مہمان نوازہو،حق کے معین ومددگار ہو، میں تم کواپنی پناہ میں لیتاہوں تم لوٹ جاو“۔ابن دغنہ نے ابوبکررضی اللہ عنہ کے جواوصاف بیان کیے ہیں وہ بعینہ وہ اوصاف ہیں جوحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شمارکیے تھے،جس سے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کافضل وکمال اوراپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کاعلم ہوتاہے۔بقول مولانامحمدادریس کاندھلوی ؒ کے :مقام نبوت کے مابین کوئی اورمقام نہیں،مقام صدیقیت کی نہایت مقام نبوت کی ہدایت سے جاکرملتی ہے۔
دوسراواقعہ جس سے نسبت اتحادی کھل کرسامنے آتی ہے وہ ہجرت کے دوران سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کاحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے برتاو¿ہے،اس سے غایت درجہ اتحاد معلوم ہوتاہے،ہجرت کرکے دونوں حضرات جب مدینہ پہنچتے ہیں اورلوگ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کوپیغمبرسمجھ کرمصافحہ کررہے ہوتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پرکوئی نکیرنہیں فرماتے۔صدیق اکبررضی اللہ عنہ کامقصود یہ تھاکہ محبوب کی تھکاوٹ میں اضانہ نہ ہو،البتہ جب محبوب پردھوپ آنے لگی توصدیق کپڑالے کر کھڑے ہوئے ،تب دیکھنے والوں کوخبرہوئی کہ آقایہ ہیں اورجن سے ہم مصافحہ کرتے تھے وہ غلام ہیں۔حکیم الامت مجددملت مولانااشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:”عارفین نے اس واقعہ کانکتہ یہ بیان کیاہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کوجوفنافی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کامقام عطاہواہے جس کی وجہ سے ان کوحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غایت درجہ اتحادنصیب تھا، اس کے اظہارکے واسطے حق تعالیٰ نے یہ صورت اورواقعہ ظاہرکردیا،اورحضرت صدیق کو”ھذارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ لوگوں کی زبان سے کہلوادیا۔صدیق کامقام ایساعالی ہوتاہے کہ اس کے علوم کامآخذبھی وہی ہوتاہے جونبی کامآخذہے اورجوبات نبی کے دل میں آتی ہے وہ صدیق کے دل پربھی فائض ہوتی ہے، مگرصدیق کے علوم کااعتبارنبی کی تائیدکے بغیرنہیں ہوتا۔نبی اورصدیق کے علوم میں مآخذایک ہونے کے باوجودفرق یہ ہے کہ نبی کاعلم خطاسے محفوظ ہے اورقطعی ہے اورصدیق کاعلم ظنی ہوتاہے جس کی صحت کے لیے تائیدنبی کی ضرورت ہوتی ہے“۔تاریخ وسیرکی کتابوں میں صحابہ کرام علیہم الرضوان سے منقول ہے کہ:” جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے توآپ کے ساتھ آپ کے ہم عمرابوبکررضی اللہ عنہ بھی تھے ،ہم میں زیادہ ترایسے حضرات تھے جنہوں نے اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں دیکھاتھا،لوگوں کاوہاں اژدہام ہوگیا،پہلے توہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکررضی اللہ عنہ میں تمیزہی نہ کرسکے، البتہ جب آپ ؑپرسے درخت کاسایہ جاتارہاتو ابوبکرنے اٹھ کراپنی چادرآپ پرتان دی، اب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہچان لیا“۔قارئین ان دونوں واقعات کوسامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ امیرالمومنین خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جناب سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کا سرور دوعالم ،محبوب کائنات،محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدرمضبوط اورگہراتعلق تھااورفنافی الرسول کاحقیقی مقام اورنسبت اتحادی انہیں حاصل تھی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں