سہ فریقی کانفرنس اور توقعات
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہترتجارتی و معاشی سرگرمیوں کے لیے امن ناگزیر ہے بدامنی سے تجارتی و معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتیں اور مملکتوں کے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں علاقائی امن و استحکام کی بات ہو یاترقی وخوشحالی،یہ مقاصد ہمسایہ ممالک میں قریبی تعاون سے ہی ممکن ہیں۔ بداعتمادی اور کشیدگی سے باہمی تعاون ،ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں ہو سکتی یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ پاکستان ،چین اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے خطے میں ترقی و خوشحالی کے لیے افغانستان میں امن ناگزیر ہے۔ افغانوں کی بھوک و افلاس کے خاتمے کی منزل بھی امن سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ باعثِ اطمینان بات یہ ہے کہ تینوں ممالک کی قیادت کو اِس کا احساس ہے ایسے حالات میں جب ساری دنیا افغانستان سے کنارہ کش ہے، پاکستان اور چین نے تعاون بڑھانے اور افغانستان کو علاقائی اور عالمی معاملات میں ساتھ لیکر چلنے کی حکمتِ عملی بنالی ہے۔ اب یہ طالبان قیادت کی ذمہ داری ہے کہ دونوں ممالک کے اعتماد کوٹھیس پہنچانے والے اقدامات سے گریز کرے اور ثابت کرے کہ اُسے بھی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے بجائے عالمگیریت کا حصہ بننے میں دلچسپی ہے ۔
پاکستان کی میزبانی میں رواں ہفتے سہ فریقی کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کی دعوت پر چینی وزیرِ خارجہ چن گانگ اور قائم مقام افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کانفرنس میں شریک ہوئے جس سے خطے کو بڑی توقعات ہیں سہ فریقی مزاکرات میں تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ میں اعتماد اور تعاون کی خواہش نظر آئی اور برادرانہ گرمجوشی کا تاثر قائم ہواجس سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ مستقبل میں نہ صرف تینوں ممالک کے باہمی تعلقات مزید بہتر اور مضبوط ہوںگے بلکہ خطے میں تجارتی و معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا مگر تینوں ممالک یہ مت بھولیں کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلتے ہوئے جس عجلت کا مظاہرہ کیا ہے، اُس سے سیاسی تصفیے کی منزل دورہونے کے ساتھ افغانستان مستقل بدامنی کی آماجگاہ بنتاجارہاہے۔ امریکا نے جانے کے بعد مزید نوازش یہ کی کہ ابھی تک اثاثے بھی منجمد کررکھے ہیں ۔یہ افغان عوام کی مشکلات بڑھانے کی دانستہ کوشش ہے مگر طالبان کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان اُن کا عالمی سطح پر مقدمہ لڑ نے اور عالمگیریت کا حصہ بنانے میں پیش پیش ہے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس 23 مارچ 2022اسلام آباد میں بھی خاص طورپر برادر ہمسائے افغانستان کو شریک ہونے کا موقع فراہم کیا تا کہ اپنی پالیسیوں کے حوالے سے طالبان مسلم دنیا کو اعتماد میں لے سکیں ۔ اب چین جیسی دنیا کی سب سے بڑی معاشی و دفاعی طاقت کے ساتھ بیٹھنے کا موقع فراہم کرنا اِ س امر کا غماز ہے کہ پاکستان کو صرف افغانوں کی معاشی مشکلات کا احساس ہی نہیں بلکہ وہ مشکلات دور کرنے میں بھی سنجیدہ ہے ۔
حالیہ سہ فریقی ملاقاتوں میں بھی افغانستان کے 9.5 ارب ڈالر کے اکائونٹس اور اثاثوں کو غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کرنا سنجیدہ کوششوں کاہی حصہ ہے۔ تینوں ممالک کی بات چیت میں افغان امن و امان اور معاشی صورتحال خاص طورپر زیرِ بحث رہی اور بہتری لانے کے لیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق نظرآیالیکن افغان قیادت کو یہ بھی چاہیے کہ سرحدوں پر امن قائم کرنے کے لیے ایسے نتیجہ خیزاقدامات اُٹھائے جس سے پاکستان کا اعتماد بڑھے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا، نہ صرف افغانستان کے اندر بدامنی فروغ پارہی ہے بلکہ سرحدوں کاامن بھی متاثر ہے ۔اِس سے طالبان کی کمزوری ظاہرہوتی ہے یہ صورتحال بدامنی کے خواہشمند عناصر کے لیے تو بہتر ہو سکتی ہے لیکن علاقائی امن و استحکام، ترقی و خوشحالی کے لیے نقصان دہ ہے اور ایسے حالات میںباہمی تجارت بڑھانا ممکن نہیں رہتا ۔
ہمارے خطے کی حساسیت کسی سے پوشیدہ نہیں جس کا ادراک کیے بغیر آگے بڑھنا اور ترقی کی منزل حاصل کرنا مشکل ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ افغانستان کو درپیش مسائل کاپاکستان کے ساتھ اب چین کوبھی احساس ہے اور وہ بھی طالبان کو ساتھ لیکر آگے بڑھنے میں سنجیدہ ہے۔ پاکستان اور چین کی طرح روس بھی افغان قیادت سے تعلقات اُستوار کرنے کا متمنی ہے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ طالبان ایسے عناصر کی سرکوبی اولیں ترجیح بنائیں جونہ صرف سرحدپار حملوں میں ملوث ہیں بلکہ پاک افغان قربت کے بھی خلاف ہیں۔ یہ عناصر نہ صرف سرحدی مسائل اُٹھاتے رہتے ہیں بلکہ پاکستان سے زیادہ بھارت سے دوستی کے لیے بے چین ہیں۔ طالبان کو ذہن نشین ہوناچاہیے کہ یہی عناصر ہی حامد کرزئی اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتوں کاحصہ رہے ۔یہ نہیں چاہتے کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے طالبان کے لیے ضروری ہے کہ سرحد پارحملوں اور پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کے خواہشمند عناصر سے سختی کریں۔ جب پاکستان خلوص سے افغان مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں یکسو ہے اِس کے باجود سرحد پار حملے جاری رہنا پاکستانی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ افغانستان میں امن کی طرح سرحدی خلاف ورزیوں کو روکنا بھی ضروری ہے ۔یہ عیاں حقیقت ہے کہ آج بھی افغانستان متعدد علاقائی دہشت گردگروپوں کا ایسا مرکز ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات درپیش ہیں۔ افغان وزیرِ خارجہ کی طرف سے ایسے چیلنجز پر قابوپانے کے لیے سہ فریقی کانفرنس میں مل کرکام کرنے کی خواہش ایک مثبت پیش رفت ہے مگر یہ خواہش صرف زبانی طورپر ہی نہیں عملاً بھی نظر آنی چاہیے ۔سرحدی نظام بہتر بنانے اور سیکورٹی کے مسائل پر قابو پانا ہے تو دوطرفہ میکانزم کو باقاعدہ اور بہتر بنانے پر باہمی تعاون بڑھانا ہوگا ۔
سہ فریقی کانفرنس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تینوں ممالک نے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کھلے دل سے بات چیت کی اور پھر مہمان وزرائے خارجہ نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں بھی کیں ملاقاتوں میں خطے کی سلامتی اور دہشت گردی سے نمٹنے سمیت اہم مسائل و معاملات پر ایک دوسرے کا نکتہ نظر جاننے کے لیے تبادلہ خیال کیاگیا مگر امن مخالف عناصر کی سرکوبی کرنا ہے تو تینوں ممالک ہمہ گیر لائحہ عمل بنا کر مشترکہ کوششیں کریں ۔اِس طرح ہی تجارتی و معاشی سرگرمیوں کے لیے خطے کے حالات کو آئیڈیل بنایا جا سکتا ہے سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا تو اسمگلنگ کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔ افغانستان اسلامی ملک ہوکربھی پاکستان سے اچھے اور قابلِ رشک تعلقات نہیں بنا سکا۔ حالانکہ دونوں ممالک کے عوام میں مثالی تعاون ہے مگر حکومتی حوالے سے اِس کا فقدان ہے ۔ پاکستان کے خلوص اور تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کاکابل اقرار تو کرتا ہے لیکن عملی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اگرایسا ہوتا توحل شدہ سرحدی معاملات دردِ سرنہ بنائے جاتے اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کی بجائے خاتمہ کرنے پرتوجہ دی جاتی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا بلکہ اب تو ایسا تاثر بن رہا ہے کہ طالبان نہ صرف ملکی مسائل حل کرنے میں ناکامی سے دوچار ہیں بلکہ امن و امان قائم کرنے کی صلاحیتوں سے بھی عاری ہیں ۔وہ جتنی جلد سرحد پارحملوںپر قابو پالیںگے یہ اُن کی حکومت کے لیے سودمند ہوگا پاکستان کو بھی اِس حوالے سے دوطرفہ ملاقاتوں میں گومگوں کی کیفیت ختم کرتے ہوئے تحفظات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
پاک چین تعلقات روزبروز فروغ پارہے ہیں پاکستان کو درپیش اقتصادی مشکلات کے خاتمے اور کشمیر کے حوالہ سے چین کی حمایت اور کوششیں بہت اہم ہیں ۔حالیہ سہ فریقی کانفرنس کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ علاقائی سلامتی کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں افغانستان کی شمولیت ،تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں اضافے ،دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے شرکامیں کامل اتفاق دیکھنے میں آیا مگر سیکورٹی چیلنجوں کا موثر طریقے سے مقابلہ کرنا ہے تو افغانستان کو غیر سنجیدگی ترک کرتے ہوئے عالمگیریت کا حصہ بننے پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ہمسایہ ممالک کا اعتمادحاصل کرنا ہوگا پاکستان کا چین کی حمایت کا اعادہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ اُس کا چین کی طرف جھکائو ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ پاکستان دیگر عالمی طاقتوں سے تعلقات میں بگاڑ لائے بغیراپنے مفاد کا تحفظ کرے ۔
٭٭٭