کراچی میں فضائی آلودگی سے50 ہزار ہلاکتوں کا انکشاف
شیئر کریں
کراچی میں فضائی آلودگی کے باعث 50 ہزار ہلاکتوں کا انکشاف ہوا ہے، فضائی آلودگی کی روک تھام کا ذمہ دار ادارہ اپنے اہم اور بنیادی فرض فضائی ماحول میں آلودگی کی سطح کا پتہ چلا کر اس کی روک تھام کے اقدامات لینے میں بری طرح ناکام ہوگیا، اس کام کے ذمہ دار لیبارٹری افسران صنعتی ماحول کی نگرانی کے شعبے کی کڑوں روپے آمدن والی بااختیار پوسٹوں پر براجمان ہیں۔جراٗت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارے کئی بارواضح چکے ہیں کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کے باعث سالانہ1 لاکھ28 ہزار ہلاکتیں ہوتی ہیں ،سب سے زیادہ آبادی اور ٹریفک والا شہر ہونے کے ناطے کراچی میں پچاس ہزار سالانہ ہلاکتوں کا تخمینہ ہے جس کا ذمہ دار سیپا ہے، سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کی لیبارٹریوں میں فضائی ماحول کی نگرانی کے آلات گزشتہ5 سال سے ناکارہ ہیں اور انہیں چلانے اور ٹھیک کرنے پر مامور تین اعلی افسران کراچی میں نفع بخش پوسٹوں پرتعینات ہیں،افسران میں ڈائریکٹر جنرل سیپا نعیم احمد مغل کا چہیتا افسرکینیڈین شہری اور سیپا سے بگھوڑا قرار دیئے جانے والا ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران خان بھی شامل ہے،5 سال پہلے تک سیپا اور ڈی سی سینٹرل کے دفاتر کی چھت پر نصب فضائی ماحول کی نگرانی کے آلات ٹھیک ٹھاک کام کررہے تھے تاہم انہیں چلانے پر مامور ایک بڑے افسر کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جگہ تین کمائی پرست افسران کے آنے کے بعد سے وہ دیکھ بھال ٹھیک سے نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں۔نئے آنے والے دو افسران نے کراچی کے صنعتی اضلاع کا چارج لے رکھا کیونکہ اس میں اوپر کی آمدن کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں اور فیکٹریز سے کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے ، آلات کی مرمت و دیکھ بھال پر مامور افسر اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا ہے،سیپا کے افسران کی نااہلی اور بدعنوانی کی لت کا خمیازہ کراچی کے عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے کیونکہ فضائی ماحول کے معیار کا تخمینہ لگانے والے عالمی اداروں کے مطابق کراچی دنیا کے دس آلودہ ترین ممالک میں سے ایک اکثر و بیشتر رہتا ہے جہاں باریک ذرات کی فضاء میں مقدار ناقابل برداشت سطح پر جانے کے باعث سالانہ پچاس ہزار ہلاکتیں فضائی آلودگی سے ہونے والے امراض کے باعث ہوتی ہیں۔یاد رہے کہ کیماڑی میں زہریلی گیس کے اخراج کے باعث ہونے والی 18 ہلاکتوں کا ذمہ دار بھی سیپا کو ٹھیرایا جارہا ہے کیونکہ مرنے والوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس کے مطابق ان کی ہلاکتیں فضائی آلودگی کے باعث ہوئی تھیں جسے سندھ حکومت کے اعلی حکام بالکل نظر انداز کرکے عوامی شکوک کی توثیق کررہے ہیں کہ آلودگی کے مارے بے چارے عوام کی ہلاکتوں میں سب کے سب شریک ہیں۔