افطار پارٹیاں، ذمہ داریاں اور کوتاہیاں
شیئر کریں
مولانا محمد الیاس گھمن
…………………..
اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرانا بہت نیک عمل ہے، احادیث مبارکہ میں اس کے فضائل بکثرت موجود ہیں،لیکن افسوس کہ فیشن پرستی کے اس دور میں یہ نیکی بھی دوسری نیکیوں کی طرح محض فیشن کی حد تک محدود ہو گئی ہے،مفادات اور فخرومباہات کی دنیا میں عبادات اور طاعات کا دین گم ہوگیا ہے۔یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اللہ تعالی ہمیں دنیاوی مفادات اور نام و نمود سے بالاتر ہوکر محض اپنی رضا کے لیے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔شریعت میں روزہ افطار کرانے پر کیا اجر و ثواب ملتا ہے، چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں۔
1:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے تو یہ اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور جہنم کی آگ سے نجات کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا اور یہ کہ روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی بندہ ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسّی کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔
(صحیح ابن خزیمہ)
2:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی حلال کی کمائی میں سے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کراتا ہے تو اس کے لیے پورا رمضان فرشتے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں اور لیلۃ القدر میں جبرائیل امین بھی اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔
(طبرانی)
3:حضرت زید بن خالد جُہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے تو اس کے لیے بھی اتنا اجر ہے جتنا روزہ رکھنے والے کے لیے اور روزہ دار کے اجر سے کمی نہیں ہوتی۔
(جامع الترمذی)
اسلام میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرانا غم گساری، انسانی ہمدردی، باہمی محبت، اللہ کی رضا کا ذریعہ اور حصول جنت کا باعث ہے لیکن آج ان تمام مقاصد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ عمل دنیاوی مفادات، فخرو مباہات، نام ونمود اور ایک فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے۔ مہنگے مہنگے میرج ہالز، کارنر پوائنٹس اور ہوٹلز میں افطار پارٹیزکا رواج پہلے کی نسبت آج کل زیادہ ہو رہا ہے۔ جن میں افطار پارٹی کے نام پر فی کس ہزاروں روپے میں متعدد ڈشیں،مشروبات اور قسماقسمی کھانوں سے آراستہ ان لوگوں کی دعوت افطار کی جاتی ہے جو ’روزہ دار‘ کم ’روزہ خور‘ زیادہ ہوتے ہیں،حسن ظن کا تقاضا تو یہ ہے کہ انہیں روزہ دار ہی کہا جائے لیکن مشاہدہ اس کے برعکس گواہی دیتا ہے۔مردو خواتین کا بے حجابانہ مخلوط اجتماع ہوتا ہے جس سے روزہ کی روح مر جاتی ہے۔
روزہ کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان میں غریب پروری پیدا ہو، غریبوں سے اظہار ہمدردی کا جذبہ اجاگر ہو لیکن ہمارے ہاں غریبوں، محتاجوں، یتیموں، مسکینوں، بے آسراؤں اور نادار لوگوں کو جس انداز میں نظر انداز کیا جاتا ہے وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ اشرافیہ اور مالدارطبقے کے پڑوس میں بسنے والے کتنے بے سہارا اور مستحق امداد لوگ ہوتے ہیں جنہیں افطار پارٹی میں شرکت سے محروم رکھا جاتا ہے، گویا ہم انسانی ہمدردی اور، شرعی احکام پر عمل کم اپنے اسٹیٹس کو زیادہ ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہی سوچ قوموں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
افطار پارٹیز میں بعض جماعتیں، ادارے اور افراد اپنے اپنے طور پر دستر خوان لگاتے ہیں، روڈ کے کناروں پر لگے لمبے لمبے دستر خوانوں پر کھانے کی فراہمی تو ہوتی ہے لیکن انہیں مسنون زندگی گزارنے کا لائحہ عمل نہیں سکھلایا جاتا۔ یوں ہزاروں، لاکھوں بلکہ کروڑوں خرچ کرنے کے باوجود بھی ہم اپنے بھائیوں کو رمضان گزارنے کا طریقہ بلکہ زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں سمجھا پاتے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ افراد، جماعتیں یا ادارے جو افطاری کا بندوبست کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ افطاری سے تھوڑی دیر پہلے کسی مستند عالم دین سے درخواست کر کے اصلاحی بیان کرایا جائے جس میں اصلاح عقائد، اصلاح مسائل اور اصلاح معاشرے جیسے اہم موضوعات شامل ہوں۔ خوف خدا اور فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، پانچ وقت کا پکا نمازی بنانے کی ترغیب احسن انداز میں دی جائے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت سمجھائی جائے، معاشرے میں رہنے سہنے کے اسلامی طور طریقے بتلائے جائیں، باہمی لین دین اور معاملات کو حسن سلوک سے نبھانے کا طرز سکھلایا جائے،احترام رمضان، سحر و افطار کے احکام و مسائل، تہجد، تلاوت قرآن، ذکر واذکار، نوافل و تسبیحات، تراویح اور دعاؤں کی خوب ترغیب دی جائے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ بعض جماعتیں افطار الصائمین کے نام پر فرقہ وارانہ لٹریچر عام کرتے ہیں، باہمی نفرتیں پھیلاتے ہیں۔
الغرض افطار پارٹی کی جائے، ضرور کی جائے، اس میں جہاں دوست و احباب، مالدار اور دنیاوی مفادات سے متعلقہ اشخاص کو دعوت دی جائے تومعاشرے کے ستم سہنے والے غریبوں مسکینوں کوبھی ضرور یاد رکھاجائے، دینی مراکز، مکاتب و مدارس، فلاحی ادارے، رفاہی جماعتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ مخلوط اجتماعات سے گریز کیا جائے، روزہ کے حقیقی مقاصد کو پانے کی فکر کی جائے اور احترام رمضان کا ضرور خیال رکھا جائے اور افطار پارٹیز میں شرکت کرنے والوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی صحیح معنوں میں روزہ دار بنیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنی ذمہ داریاں پورا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور نیک اعمال میں کوتاہیوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
٭٭٭