ٹرمپ پالیسیز: سیاحتی شعبے کو 7 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان کااندیشہ
شیئر کریں
٭نئے صدر امریکی معیشت کے لیے بوجھ بن گئے، دیگر صنعتوں کوبھی ہنر مندوں کی کمی کی وجہ سے نقصان کاسامنا کرنا پڑسکتاہے
٭ غیر ملکی طلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اب امریکی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں برطانیہ،آسٹریلیا اور کینیڈا کو ترجیح دے رہے ہیں
ہینری گولڈ مین
امریکا کے نومنتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات خاص طورپر غیر ملکیوں کے بارے میں ان کے خیالات اور اس کے پرتشدد انداز میں اظہار امریکی معیشت کے لیے بوجھ بنتے جارہے ہیں،امریکی ماہرین معاشیات کا کہناہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے تندوتیز بیانات سے سب سے پہلے سیاحت کے شعبے پر منفی اثرات نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیںاور سیاحت کی غرض سے امریکا آنے والے لوگوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہونا شروع ہوگئی ہے ،ماہرین معاشیات کا کہناہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات امریکی معیشت کے لیے بوجھ بنتے جارہے ہیں کیونکہ ان بیانات کی وجہ سے امریکا کے صرف سیاحتی شعبے کورواں سال کے دوران 7 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان کااندیشہ ہے۔اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات کی وجہ سے امریکا کی دیگر صنعتوں کوبھی ہنر مند افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے نقصان یہاں تک کہ بندش تک کاسامنا کرنا پڑسکتاہے، جس سے لاکھوں امریکی بیروزگار ہوجائےں گے۔
امریکا میں سیاحتی شعبے کے ماہرین کاکہناہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے تند وتیز بیانات کی وجہ سے نیویارک اور دیگر امریکی شہروں میں سیر وسیاحت کے لیے آنے والے لوگوں نے اپنے سفر کی ترجیحات میں تیزی سے تبدیلی شروع کردی ہے جس کی وجہ سے نیویارک آنے والے سیاحوں کی تعداد جس میں رواں سال اضافے کی توقع کی جارہی تھی،اب یہ شعبہ روبہ زوال نظر آرہاہے اور صرف نیویارک آنے والے سیاحوں کی تعداد میں0 2 فیصد سے زیادہ کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ اس سے قبل گزشتہ 8 سال سے نیویارک آنے والے سیاحوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیاجارہاتھا۔اعدادوشمار کے مطابق نیویارک کے علاوہ لاس اینجلس اور میامی آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بھی نمایاںکمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔
ماہرین کاکہناہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 7 مسلم ممالک کے لوگوں پر امریکا میں داخلے کے حوالے سے احکامات کو اگرچہ امریکی عدالت نے معطل کردیاہے لیکن ان احکامات کی وجہ سے پوری دنیا کے سامنے جو پیغام گیاہے وہ یہ ہے کہ اب امریکا پوری دنیا کے لوگوں کے لیے کھلا ملک نہیں رہا اوراب بتدریج امتیازی نسلی پالیسیوں کا مرکز بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس منفی پیغام کا سب سے پہلا اثر سیر وتفریح کے لیے امریکا آنے والے سیاحوں کی تعداد کی کمی کی صورت میں سامنے آیاہے، لیکن یہ صرف ابتدا ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق حصول تعلیم کے لیے امریکا آنے والے غیر ملکی طلبہ نے بھی امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے حاصل کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنا شروع کردی ہے اور اب غیر ملکی طلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں برطانیہ،آسٹریلیا اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں کو ترجیح دے رہے ہیں جہاں عالمی معیار کے بیشمار تعلیمی ادارے موجود ہیں ۔یہی نہیں بلکہ ان ملکوں میں حصول تعلیم کے لیے آنے والے طالبعلموں کو بعض ایسی سہولتیں بھی حاصل ہوجاتی ہیں جو امریکا میں حصول تعلیم کے دوران ان کو نہیں ملتیں۔ ان سہولتوں میں دوران تعلیم جز وقتی ملازمتوں کی اجازت اور تعلیم کی تکمیل کے بعد متعلقہ ملک کی شہریت کے حصول کے حوالے سے رعایتیں اور ترغیبات شامل ہیں۔
امریکی ماہرین معاشیات کاکہناہے کہ حصول تعلیم کے لیے امریکا آنے والے طلبہ کی تعداد میں کمی کی صورت میں امریکا کے بعض مشہور تعلیمی ادارے مالی بحران کا شکار ہوجائیں گے اور ان کا وجود برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو ان کی مدد کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس طرح غیر ملکی طلبہ کی وجہ سے امریکی خزانے کو ہونے والی متوقع آمدنی میں کمی کے ساتھ ہی تعلیمی اداروں کی مدد کے لیے سرکاری اداروں کو غیر متوقع بوجھ بھی برداشت کرنا پڑے گا۔
امریکی ماہرین کاکہناہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت گیر امیگریشن پالیسی کے نتیجے میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے بچوں کے معروف ادیب میم فاکس کو لاس اینجلس کے ایئرپورٹ پرر وک کر ان سے پوچھ گچھ اور ان کی کڑی جانچ پڑتال اور فلوریڈا کے فورٹ لاﺅڈر ڈل بین الاقوامی ایئر پورٹ پر امریکا کے مایہ ناز باکسر محمد علی کے بیٹے کوروک کر اس سے کڑی پوچھ گچھ کے واقعات نے پوری دنیا میں امریکا کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور ان واقعات کی وجہ سے اب امریکا کو بھی دنیا کے نسل پرست ممالک کے زمرے میں شمار کیاجانے لگاہے۔
امریکا میں سیاحوں کی آمد کے حوالے سے اعدادوشمار مرتب کرنے والے ادارے ”فارورڈ کیز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق20 جنوری 2017 یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد فروری کے دوران یعنی صرف ایک ماہ کے دوران امریکا میں سیر وتفریح کے لیے آنے والے لوگوں کی جانب سے کرائی گئی بکنگ میں 14 فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے،جس کے معنی یہ ہیں کہ اس سال امریکا میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کم وبیش15 فیصد کم لوگ سیر وتفریح کے لیے امریکا کارخ کریں گے، اعدادوشمار کے مطابق امریکا آنے والے غیر ملکی مجموعی طورپر ہرسال امریکا میں250 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں. سیاحوں کی آمد میں کمی کے سبب ان کی جانب سے کیے گئے اخراجات کی صورت میں قومی خزانے کو ہونے والے فائدے میں اسی شرح سے کمی ہوگی اور کمی کا یہ رجحان عارضی نہیں ہوگا بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار رہنے یا ان کی طرف سے غیر ملکیوں کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں مثبت تبدیلیوں کے باقاعدہ اعلان تک کمی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔سیاحوں کی آمد میں کمی کی وجہ سے امریکا کے مختلف شہروں میں سیاحوں کی دلچسپی کی اشیا تیار و فروخت کرنے والے اداروں اور دکانداروں کو بھی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس طرح ان دکانوں اور فیکٹریوںا ور کارخانوں سے درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں ملازمین کو سڑکوںپر آنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
ماہرین کاکہناہے کہ نیویارک میں سیاحوں کی آمد میں کمی کے نتیجے میں اس شہر کو سالانہ کم وبیش90 کروڑ ڈالر کانقصان اٹھانا پڑے گا ۔اسی طرح لاس اینجلس اورمیامی کے دکانداروں اورفیکٹری مالکان کوبھی مجموعی طورپر کروڑوں ڈالر کانقصان اٹھانا پڑے گا۔ماہرین کاکہناہے کہ امریکا میں سیاحوں کی آمد میں کمی کا ڈونلڈ ٹرمپ کو براہ راست بھی نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ وہ خود امریکا کے کئی بڑے ہوٹلوں کے مالک ہیں جن کی آمدنی کابڑا ذریعہ غیر ملکی سیاح ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب سیاحوں کی آمد کی شرح میں کمی ہوگی تو اسی مناسبت سے ان ہوٹلوں کی آمدنی بھی متاثر ہوگی جس کا براہ راست نقصان ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی فیملی کے دیگر ارکان کو ہوگا۔
٭٭٭