''دی روڈ ٹو مکہ'' کے خالق، علامہ محمد اسد
شیئر کریں
ریاض احمد چودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ایسے اسکالر جو غیر مسلم تھے اور بعد میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بیش بہا خدمات انجام دیں، ان میں علامہ محمد اسد کا ایک بڑا نام ہے۔
محمد اسد پولینڈ کے ایک یہودی گھرانے میں لمبرگ (موجودہ یوکرائن) میں /2جولائی1900ء میں پیدا ہوئے۔ان کا خاندانی ناملیوپولڈ ویز تھا۔ ان کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ محمد اسد نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ بعد ازاں ان کے اہل خانہ ویانا منتقل ہو گئے جہاں 14 سال کی عمر میں انہوں نے اسکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شمولیت کی کوشش کی تاکہ پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرسکیں تاہم ان کا خواب آسٹرین سلطنت کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ جنگ کے بعد انہوں نے جامعہ ویانا سے فلسفہ اور تاریخ فن میں تعلیم حاصل کی لیکن یہ تعلیم بھی ان کی روح کی تشفی کرنے میں ناکام رہی۔
انہوں نے مشرقی اور ایشیائی مطالعات میں دلچسپی لی اور اسلامیات کا گہرامطالعہ کیاجس نے ان کو اسلام کی حقانیت کا قائل کردیا۔محمد اسد حصول علم ،فکرکی پختگی،اور علمی تبحر میں تو معروف ہیں ہی، ساتھ ہی ان کو سیر وسیاحت کا بھی بڑا شوق تھا چنانچہ وہ بعد کی زندگی میں ایک بڑے سیاح ثابت ہوئے کہ ایک بار سفر شروع ہوا تو پھر تو انہوں نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔1922ء میں پہلی بار مشرق وسطیٰ کا سفر کیا اور مصر، اردن، فلسطین، شام اور ترکی کے اسفار کیے۔ عرب دنیاکی سیاحت کے دوران وہ عرب کلچراور عرب اخلاقیات سے بے حد متاثر ہوئے جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب ”دی روڈ ٹو مکہ ”میں کیاہے۔اپنے طویل تجربے اور مشاہدے اور مسلسل مطالعے کے بعد انہوں نے 1926ء میں برلن میں اسلام قبول کیا اور اپنا اسلامی نام محمد اسد رکھا۔
1932ء میں وہ ہندوستان آ گئے اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے ملاقات کی۔ علامہ اقبال سے ملاقات کے بعداپنے آئندہ سفر کے ارادے کو ترک کیا اور علامہ کے ساتھ فکر اسلامی کی تعمیر نو کا کام کیا۔ ‘عرفات’ کے نام سے ایک رسالہ (انگریزی) جاری کیا۔علامہ اقبال نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسلامیہ کالج لاہور میں نسل نو کو اسلامیات کا درس دیں۔سید نذیر نیازی کے نام 1934ء کے متعدد خطوط میں محمد اسد کے حوالے سے علامہ اقبال کا اظہار خیال موجود ہے۔ اسی سال محمد اسدکی کتاب (Islam at the Cross Road) شائع ہوئی، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے لکھا:یہ بہت ہی دلچسپ چیز ہے، مجھے ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ایک اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ نومسلم یوروپین کے قلم سے منظر عام پر آنے سے ہماری نسل کے لیے چشم کشا ثابت ہوگی۔یہ مختصر سی کتاب نئی اسلامی ادبیات میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے،چنانچہ اس کے ترجمے عربی اور اردو زبانوں میں ہوئے۔عربی ترجمہ الاسلام علی مفترق الطرق کے نام سے چھپا اور عالم عرب میں کافی مقبول ہوامولانا علی میاں ندوی اس کتاب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ان ہی کی تحریک پر اس کا اردو ترجمہ” اسلام دوراہے پر”کے نام سے ایک ندوی فاضل کے قلم سے نکلااور مجلس صحافت و نشریات اسلام ندوة العلماء لکھنؤ سے شائع ہوا۔
دسمبر 1935ء کے لگ بھک صحیح بخاری کے انگریزی ترجمہ کا کام کیا۔ لیکن مالی وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ کام رک گیا۔ پھر سر اکبر حیدر آبادی(وزیر اعظم حکومت حیدرآباد)کی توجہ اور دلچسپی سے آصف جاہ سابع نے صحیح بخاری کے انگریزی ترجمہ کی منظوری دی اور نواب صاحب بھوپال نے ‘عرفات’ پبلی کیشنز کو ٹائپ مہیا کیے۔ اس طرح 1938ء میں صحیح بخاری کے مجوزہ چالیس حصوں کے منجملہ پانچ حصے اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان کے انتساب کے ساتھ شائع ہوئے۔بقیہ کام قید فرنگ، تقسیم ہند اور مسودات کے گم ہوجانے کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا۔
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں پہلا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے 1952ء تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔علمی وتحقیقی کارناموں کے ساتھ ہی عالمی صحافت پر گہری نظر اور پختہ سیاسی شعور کے باعث انہوں نے بحیثیت سفارت کا ر بھی اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا۔چنانچہ قیام پاکستان کے بعد محمد اسد کو اسلامی تعمیر نو کے ایک نئے محکمے Deparment of Islamic Reconstructionکا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ انہوں نے وزارت خارجہ میں ڈپٹی سیکریٹری اور مڈل ایسٹ ڈویژن کے انچارج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ 1953 ء میں ان کی مشہور کتاب ”دی روڈ ٹو مکہ ”شائع ہوئی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ الطریق الی مکہ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب کی بھی عالم اسلام میں خاصی پزیرائی ہوئی۔
علامہ محمد اسد سے راقم الحروف کا تعارف دسمبر 1957ء میں لاہور میں قیام کے دوران ہوا تب وہ پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی اسلامی سیمینار کا اہتمام کر رہے تھے۔ ان کی کوششوں سے اس سیمینار کا انعقاد ہوا۔ مجھے ا ن سے انٹرویو کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ میرے خیال میں ، میں زندگی میں جن اہل علم حضرات سے متاثر ہوا ہوں ان میں علامہ محمد اسد کا نام چند گنے چنے اصحاب میں شامل ہے۔ علامہ محمد اسد نے 17 سال کی کاوشوں کے بعد 80 برس کی عمر میں اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب "قرآن پاک کی انگریزی ترجمہ و تفسیر” کو تکمیل تک پہنچایا۔
علامہ محمد اسد 1926ء میں قبول اسلام کے بعد علوم اسلامی سے سنجیدگی کے ساتھ وابستہ رہے۔ اور انہوں نے اتنا کمال بہم پہنچایا کہ جب پنجاب یونیورسٹی نے علوم اسلامی کا شعبہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی مسند صدارت کے لیے حکام کی نگاہ انتخاب علامہ محمد اسد پر پڑی۔ وائس چانسلر نے شعبہ اسلامیات کی صدارت کے لیے علامہ محمد اسد کا نام تجویز کیا۔ علامہ محمد اسد نے اس پیش کش کو قبول کیا۔ علامہ محمد اسد 11ماہ تک اس عہدہ پر رہے۔ پھربعض وجوہات کے پیش نظر وہ یورپ چلے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر پاکستان آئے، ملک کی سفارتی خدمات انجام دیں۔ تاہم پنجاب یونیورسٹی پاکستان سے ان کا تعلق کسی نہ کسی حیثیت سے برقرار رہا، بلکہ1980 کے بعد اس کے ذریعہ منعقدہ عالم اسلامی کلوکلیم کے انعقاد کی ذمہ داری بھی ان کو دی گئی تھی۔ اس کے لیے وہ ایک بار پھر پاکستان آئے۔ البتہ اس علمی مذاکرہ کے انعقاد سے پہلے ہی یونیورسٹی انتظامیہ سے اختلاف کے باعث وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے بعد پھرمحمد اسدکبھی پاکستان نہیں آئے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ ہسپانیہ چلے گئے تھے جہاں 20فروری 1992ء کو انہوں نے زندگی کی آخر ی سانس لی۔تدفین کے لیے محمد اسد کو فلسطین لایاگیا۔ اب وہ غزہ کے مسلم قبرستان میں آرام فرما ہیں۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے