مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت بنانے کا بھارتی منصوبہ
شیئر کریں
کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ ہندو انتہاپسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی حمایت یافتہ مودی حکومت ، جموں وکشمیر میں لوگوں کی زمینوں کو طاقت کے بل پر چھین رہی ہے تاکہ غیر کشمیریوں کو بساکر علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جائے۔ کشمیری بھارت کے مذموم منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں عالمی قوانین اورضوابط کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر نظر بند حریت رہنمائوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارتی فورسز کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو روکنے اور تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کیلئے ملک کے مختلف حصوں سے باشندوں کو لا کر مستقل طور پر وادی میں آباد کر رہا ہے۔ اس کے لئے امرناتھ غار علاقہ کے قریب امرناتھ نگر قائم کررہا ہے جہاں بھارتی حکومت اور شری امرناتھ شرائن بورڈ مل کر سڑکیں، ہٹس اور عمارتیں تعمیر کر رہی ہے۔ یوں بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جموں و کشمیر میں اکثریتی آبادی کو اقلیت دکھانے میں کامیاب ہو جائے گا جس کا ثبوت یہ ہے کہ جموں کی آبادی کو سرینگر شہر کی آبادی سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔ امرناتھ نگر میں بہار، اترپردیش ، ہماچل پردیش اور پنجاب سے ہزاروں افراد کو مستقل رہائش کے سرٹیفکیٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بھی انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی طور پر گھروں میں داخل ہو کر لوگوں کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی فوجیوں نے بارہمولہ، بانڈی پورہ سمیت شمالی کشمیر کے مختلف علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں داخل ہوکر خود ساختہ مردم شماری شروع کر دی ہے۔ فوجی اہلکار مقامی رہائشیوں کی تمام ترتفصیلات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ لوگوں سے ان کے نام، عمریں، پیشہ جات اور ٹیلی فون نمبر سمیت مختلف حوالے سے پوچھ گچھ کے علاوہ تمام معلومات کو تحریری شکل میں جمع کیا جا رہا ہے۔ بڈگام میں کشمیریوں کو فوج کی جانب سے ایک فارم دے کر ہدایت کی گئی کہ اس پر اپنی تمام تفصیلات درج کر کے دستخط کے ساتھ واپس کریں جبکہ کئی جگہوں پر گاؤں کے نمبردار کے ذریعے لوگوں میں فارم تقسیم کیے گئے ہیں۔ گو کہ بھارتی فوج کی جنرل آفیسر کمانڈ نے مردم شماری کی خبر کو غلط قرار دیا ہے مگر چند ایک بھارتی فوجیوں کا کہنا ہے کہ کچھ فوجی کمپنیز اپنے ریکارڈ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے فوجی اختیارات کے اندر رہتے ہوئے معلومات اکٹھی کر رہی ہیں۔
تاج برطانیہ کے دور میں کشمیر میں 1911میں مردم شماری ہوئی تھی۔ اس وقت وادی جموں اور کشمیر میں 75.49 فیصد مسلمان اور22.20 فیصد ہندو تھے۔ تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کا تناسب تقریباً یہی تھا۔1947کی تقسیم کے مطابق ریاست کے عوام کی اکثریت جس طرف ہوجاتی اس وادی کو بھارت یا پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ کانگرس کو اس بات کا علم تھا کہ عوام کی اکثریت مسلمان ہے اس لیے یہ خطہ ہاتھ سے نہیں جانا چاہئے اور ایسے حالات پیدا کیے کہ طے شدہ اصول کے مطابق رائے شماری کا موقع ہی نہ آیا اور معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدوں کے بعد بھی جوں کا توں رہا۔ اس لئے کشمیری قیادت کا دعویٰ ہے کہ کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ بھارتی قیادت نے منصوبہ بندی کے تحت کشمیر میں ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد آباد کی تاکہ کشمیری مسلمان اقلیت میں آ جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔2001 میں بھارتی حکومت نے جو مردم شماری کرائی تھی اس کے مطابق کل آبادی 10143700 نفوس پر مشتمل تھی جن میں مسلمانوں کی تعداد 6793240ہے جو کل آبادی کا66.79 فیصد ہے جبکہ ہندوؤں کی آبادی 29.36 فیصد ہے اس کے باوجود بھارت عوام پر بار بار اپنی مرضی مسلط کرتا رہا ہے۔
بوگس مردم شماری کے نتیجے میں صوبہ جموں کے ہندوئوں نے اپنی پچھلی آبادی میں اچانک چار لاکھ نفوس کا اضافہ دکھا دیا ہے، گویا دس برسوں میں جموں کے ہندوئوں کی شرح آبادی میں چالیس سے پچاس فی صد اضافہ ہو گیا ؛ جب کہ مسلمان آبادی میں د س برس کے دوران اضافہ کہیںبھی دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ جموں میں مصنوعی طور پر ہندو آبادی مسلمانوں سے بڑھا دی جائے ،تا کہ کشمیری مسلمان گھبرا کر خودجموں والوںسے الگ ہونے میں ہی عافیت سمجھیں۔ کہا جاتا ہے یہ خفیہ ایجنسیوں کی ایک زبردست چال اور خفیہ منصوبہ بندی ہے جس کے تحت آہستہ آہستہ جموں خطے کی آبادی میں زبردست اضافہ دکھایا جاتا رہا ہے اور کشمیری خطے خصوصاً وادی کی آبادی میں شدید کمی ظاہر کی جاتی رہی ہے۔ اس کے دو نتائج نکلیں گے۔ اول یہ کہ آبادی میں مسلمانوں کا تناسب اتنا کم کردکھایا جائے کہ اگر کبھی رائے شماری کی نوبت آئے تو بھارت کو اس پر آمادہ ہونے سے کوئی نقصان نہ ہو۔ دوم یہ کہ وادیء کشمیر کی آبادی کم دکھانے سے ان کے حصے کی تمام جدیدسہولیات، ٹیکنالوجی اور مراعات بھی صوبہ جموںکومنتقل کی جا سکیں۔ بھارت کے حالیہ اقدام پر کشمیری عوام اگر خاموش تماشائی بنے رہے تو ایک دن اپنی شناخت کھودیں گے جو کہ بھارت چاہتا ہے۔ نہ صرف کشمیری بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ بھی اس مسئلہ کو اجاگر کرے تاکہ بھارت کے مذموم عزائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے۔
٭٭٭