اختیارات کاناجائزاستعمال،ڈی جی کے ڈی اے آصف میمن جسمانی ریمانڈ پر اینٹی کرپشن کے حوالے
شیئر کریں
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی نے اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق مقدمے میں ڈی جی کے ڈی اے آصف میمن سمیت دو ملزمان کو ایک دن کے جسمانی ریمانڈ اینٹی کرپشن پولیس کے حوالے کرتے ہوئے جمعے کی صبح دس بجے دوبارہ پیش کرمے کا حکم دیدیا۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے روبرو ڈی جی کے ڈی اے کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی۔ اینٹی کرپشن حکام نے ڈی جی کے ڈی اے آصف میمن سمیت دو ملزمان کو لنک عدالت میں پیش کردیا۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا بتائیں ملزم نے کیا کرپشن کیا ہے۔ عدالت نے وکیل اینٹی کرپشن سے استفسار کیا بتایا جائے کہ آپ کو ریمانڈ کیوں چاہئے۔ ملزمان نے کیا کیا ہے۔ ملزم کے وکیل خواجہ شمس السلام نے موقف دیا کہ مراد علی شاہ میرے موکل سے ناراض ہوئے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ تم سسٹم کا حصہ نہیں ہو۔ سسٹم یہ ہے کہ پیسے دو۔ کونسے رول اور قانون کی خلاف ورزی کی یہ نہیں بتایا گیا۔ ٹرانسفر، پوسٹنگ کے معاملات سندھ سروس رولز میں آتے ہیں۔ بتایا جائے کہ کونسا گناہ کبیرہ کیا ہے۔ پورے دن رات میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ میرے موکل پر جو الزمات ہیں اس پر براہ راست ایف آئی آر نہیں ہوسکتی۔ ان الزمات پر پہلے انکوائری ہونا تھی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے ریمانڈ پیپر سے لگتا ہے کہ چار ملزم گرفتار ہیں۔ پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ صرف دو ملزم گرفتار ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے لگتا ہے کہ آپ نئی پراسیکیوٹر بنی ہیں اسی لئے آپ کو پتہ نہیں کہ گرفتار ملزم کا کیسے لکھا جاتاہے۔ پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ آصف میمن پرالزام ہے کہ اس نے تبادلے کے باوجود افسران کو ریلیز نہیں کیا۔ ملزم کے وکیل نے موقف دیتے ہوئے کہ ملزم کا ریمانڈ نہ دیا جائے کیونکہ یہ کیس ہی نہیں بنتا۔ ملزم کا کیرئیر تباہ کیا جارہا ہے۔ پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ ملزم پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔ ملزم کے وکیل نے کہا کہ ملزم نے کوئی اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا۔ میرے موکل کو گرفتار ہی غلط کیا گیا۔ اگراحکامات نہیں مانے تویہ اینٹی کرپشن کاکیس کیسے بن گیا۔ چیف سیکرٹری سندھ ملزم آصف میمن کوہراساں کررہے ہیں۔ میں چیف سیکرٹری سندھ کیخلاف ہراسمنٹ کی درخواست بھی دائر کرچکا ہوں۔ کیڈی اے لوکل گورنمنٹ کیانڈر میں نہیں آتا۔ ٹرانسفر پوسٹنگ اور معطلی کا ایک طریقہ کار ہیاور یہ کام بورڈ کرتاہے۔ اگر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ تبادلہ کردیتاہے تو آپ کو ڈسٹرکٹ جج کے احکامات کاانتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ گریڈ 20 کے افسر کا کیرئیر تباہ کردیا گیاہے۔ ایک ہی دن میں گرفتاری ہوگئی۔انکوائری بھی ہوگئی۔ یہ سارے اقدامات کس قانون کے مطابق کئے۔ یہ افسر وزیراعلی، ناصرشاہ اور خورشید شاہ کے بنائے ہوئے نظام کے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑاہوا۔ آصف میمن نے نہ کسی افسرکو روکا ہے نہ وہ اس کا اختیار رکھتا ہے۔