سپریم کورٹ ،سندھ بھر میں سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کرانے کی ہدایت
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے کراچی کے مختلف معاملات پر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے سندھ بھر میں سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کرانے کی ہدایت کردی۔ساتھ ہی چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے طویل سماعت کے دوران ایک مرتبہ پھر حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، وفاقی حکومت کی زمین، کینٹونمنٹ ایریا کو کیسے فروخت کرسکتے ہیں، کیا ملک میں کوئی قانون نہیں ہے، کیا کوئی نہیں دیکھ رہا۔بدھ کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے شہر قائد کے مختلف معاملات پر کیسز کی سماعت کی۔عدالت عظمی نے زمینوں کے ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے، کڈنی ہل پارک، متروکہ املاک کی زمین، ڈی ایچ اے، کلفٹن کے رہائشیوں کو پانی کی عدم فراہمی، کے پی ٹی کی زمین، رائل پارک ریزیڈنسی، پی اینڈ ٹی کالونی میں غیرقانونی تعمیرات سمیت مختلف معاملات کو سنا۔سماعت کے دوران صوبے بھر کی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق جب معاملہ آیا تو سینئر رکن بورڈ آف ریونیو قاضی شاہد پرویز عدالت میں پیش ہوئے اور رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔ان کی پیش کردہ رپورٹ میں لکھا گیا کہ صوبے بھر کے اندر 7 کروڑ دستاویزات کو کمپیوٹرائڈز کردیا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا بات کررہے ہیں، آج بھی ہائی کورٹ میں جعلی دستاویزات کے کیس دائر ہورہے ہیں، اس پر رکن نے کہا کہ جعلی دستاویزات بڑی حد تک بننا ختم ہوچکے ہیں، سیکیورٹی پرنٹنگ پریس سے دستاویزات بنوائی جارہی ہیں، ہرکاغذ پر پرنٹنگ آئی ڈی موجود ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایک جعلی دستاویز میں خود پکڑی ہے اور منسوخ کی ہے، تمام مختیار کاروں کے پاس جو ریکارڈ ہے وہ ہمارے ریکارڈ سے میچ کرایا جاتا ہے، اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ٹھٹھہ کی زمینوں کے ریکارڈ میں بہت گڑ بڑ ہے، ہر ایک نے اپنی مرضی کے دیہہ بنائے ہوئے ہیں۔اس پر سینئر رکن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نذر لغاری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی جنہوں نے بڑی تعداد میں جعلی انٹریز کی نشاندہی کی ہے، ایک ہزار سے زائد جعلی انٹریز ختم کردی گئی ہیں، 1100 سے زائد انٹریز عدالتی جائزے میں ہیں جبکہ بہت ساری جعلی انٹریز بلاک کردی گئی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ 1985 سے اب تک 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد بوگس انٹریز کی نشاندہی کی گئی۔عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سینئر رکن بورڈ آف ریونیو سے پوچھا کہ سندھ میں سرکاری زمین بچی ہے کہ نہیں، جس پر رکن نے جواب دیا کہ صوبے کی بہت سرکاری زمین پڑی ہے، سپریم کورٹ نے ہماری بہت مدد کی ہے۔تاہم اس موقع پر انہوں نے سرکاری زمینوں پر تجاوزات ہونے کا اعتراف کیا اور بتایا کہ انسداد تجاوزات فورس روزانہ کارروائی کر رہی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپرہائی وے پر جاکر دیکھیں 10، 10 منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں، سرکاری زمینوں پر تجاوزات بھری پڑی ہیں، پورے پورے شہر آباد ہوچکے ہیں، یونیورسٹی سے آگے جائیں غیر قانونی تعمیرات ہی تعمیرات ہیں۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نوری آباد سے آگے تک قبضے ہو چکے ہیں، ملیر میں جاکر دیکھیں تجاوزات ہی تجاوزات ہیں، سرکاری زمین پر کثیرالمنزلہ عمارتیں بن گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز بھی ریلوے کا کیس جب چلا تو پتا چلا کہ سرکاری زمین پر عمارت بن چکی ہے۔عدالتی ریمارکس پر رکن نے کہا کہ ہم نے کام کیا ہے اور بھی کام کریں گے، مختار کاروں کے خلاف بھی کاروائیاں کی ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے رکن بورڈ آف ریونیو کو سرکاری زمین سے متعلق تمام تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی ، ساتھ ہی کہا کہ جس سرکاری زمین پر قبضہ ہے وہ تمام ختم کرائیں۔اس موقع پر عدالت نے صوبے بھر کی سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کرانے کی ہدایت کردی، ساتھ ہی صوبے بھر کی گرین بیلٹ بحال کرنے کا حکم دے دیا۔اس کے علاوہ عدالت عظمی نے کھیل کے میدانوں، پارکس سے تجاوزات کے خاتمے کی بھی ہدایت کی۔سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے کہ صوبے بھر میں محکمہ جنگلات کی زمینوں سے قبضہ ختم کرایا جائے اور ان پر دوبارہ درخت لگائے جائیں، اس کے علاوہ محکمہ آبپاشی کی زمینوں سے بھی قبضہ ختم کرایا جائے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ سرکاری زمینوں سے تجاوازات کے خاتمے کے لیے انسداد تجاوزات مہم جاری رکھی جائے۔بعد ازاں پر عدالت نے سینئر رکن کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا۔عدالت میں سماعت کے دوران کڈنی ہل پارک پر قبضے کا معاملہ ایک مرتبہ پھر زیرغور آیا، جہاں عدالت نے وہاں سے قبضہ ختم کرانے کی ہدایت کی وہی شہری تنظیم نے یہ موقف اپنایا کہ کڈنی ہل پارک کی زمین پر فرحان سوسائٹی کے 24 گھر تعمیر ہیں۔شہری تنظیم کا موقف تھا کہ پارک کی زمین پر اوورسیز سوسائٹی نے بھی قبضہ کر رکھا ہے، فرحان سوسائٹی نے پارکس کے 4 پلاٹس پر 24 گھر بنا رکھے ہیں، گھر نمبر 81 سے 111 تک پارک کی زمین پر تعمیر ہیں۔انہوں نے کہا کہ سابق کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے اس پر رپورٹ بنا دی تھی جبکہ فرحان سوسائٹی کو تیس دن میں خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے جبکہ جھگیاں خالی کرانے کے لیے 7 دن کا نوٹس دیا گیا ہے۔اس پر عدالت نے کہا کہ حکم نامہ پرانا ہے تو اب کیوں نوٹس دیئے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ سب ملے ہوئے ہیں، پارک زمین وا گزار کرائیں ورنہ توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ساتھ ہی عدالت نے فرحان سوسائٹی اورسیز سوسائٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی، مزید عدالت نے کمشنر کراچی کو عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دے دیا۔عدالت میں طویل سماعت کے دوران ڈی ایچ اے، کلفٹن کے رہائیشیوں کو صاف پانی کی عدم فراہمی کا معاملہ بھی آیا، جہاں سی او کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم واٹر بورڈ پر انحصار کرتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ واٹر بورڈ پر انحصار کرتے ہیں اور ان کیساتھ کیا ہوتا ہے، کچھ پتا ہے آپ کو؟، جب پانی نہیں آتا تو ایک میجر جاتا ہے اور واٹر بورڈ والوں کو بند کردیتا ہے، کوئی میجر ڈی ایچ اے میں رہتا ہو اور اسے پانی نا ملے پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے لان اور گارڈن کے لیے بھی پانی ہوتا ہے، آپ لوگوں نے دو لائنیں بنائی ہوئی ہیں، ایک مختص (ڈیڈیکیٹڈ)لائن ہے جس میں پانی آتا ہے اور دوسری لائن میں پانی نہیں آتا، ہم جیسے لوگوں کے لیے وہ لائن ہے جس میں پانی نہیں آتا اور ٹینکر سے ہی پانی خریدتے ہیں۔اس موقع پر عدالت نے یہ پوچھتے ہوئے کہ ڈی ایچ اے کے رہائیشوں کو کتنے پانی کی ضرورت ہے واٹر بورڈ سے دو ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔عدالت عظمی میں سماعت کے دوران سپرہائی وے پر متروکہ املاک کی زمین پر قبضے سے متعلق بھی معاملہ زیرغور آیا۔اس موقع پر وکیل متروکہ املاک نے عدالت کو بتایا کہ دیہہ گجرو سپر ہائی پر متروکہ املاک کی زمین پر قبضہ شروع ہوچکا ہے، سب کچھ سندھ حکومت کے اجازات نامے سے ہورہا ہے، ہم خالی کرانے جاتے ہیں تو ہم پر مقدمات ہورہے ہیں، ابھی بھی آباد(ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈر ڈیولپرز)کے ایک بلڈر نے ہماری 3 ایکڑ زمین پر چار دیواری بنا لی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم کیا کریں، ہم ڈنڈا چلائیں کیا جو آپ کے اختیارات ہیں وہ استعمال کریں، کیا یہ لوگ آپ سے زیادہ طاقت ور ہیں۔اس پر وکیل نے کہا کہ ابھی جس تین ایکڑ پر قبضہ ہوا ہے، ایس ایچ او اور پولیس کی نگرانی میں چار دیواری تعمیر کرائی گئی ہے، آپ بورڈ آف ریونیو سے ریکارڈ منگوالیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بورڈ آف ریونیو ایسا ایسا ریکارڈ لے آئیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے، اس پر وکیل نے کہا کہ ہمیں پولیس اور سینئر رکن بورڈ آف ریونیو کی معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کریں۔بعد ازاں عدالت نے متروکہ املاک کے وکیل کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔سپریم کورٹ میں مائی کلاچی روڈ پر کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی)کی زمین پر ہائوسنگ سوسائٹی بنانے کا معاملہ بھی زیرسماعت آیا، جہاں کے پی ٹی کے وکیل یاور فاروقی عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے کے پی ٹی کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی اور بتایا کہ کے پی ٹی کے نئے چئیرمین نے چارج لے لیا ہے اور الاٹیز کی نظر ثانی کی درخواست مسترد ہو چکی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر زمین کو کب تک بحال کریں گے، جو زمین خالی کرائی ہے وہاں پلاٹیشن کریں، مینگروز لگائیں، دو ہفتوں کا وقت دے رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ زمین کو سمندر کی سطح کے برابر کریں۔اس موقع پر الاٹیز کے وکیل ارشد طیب علی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ متعلقہ فورم پر کیس کے فیصلے کرنے کی ہدایت دی جائے، ساتھ ہی منیر اے ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں نے عدالت کی جانب سے کے پی ٹی زمین خالی کرانے کے حکم پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے ۔بعد ازاں عدالت نے نالے پر قائم رہائشی عمارت کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی