پیپلزپارٹی کی سینیٹ انتخابات کی تیاریاں
شیئر کریں
(رپورٹ: علی کیریو)سندھ میں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کمر کس لی، صوبے کی خالی ہونے والی 11 سیٹوں پر امیدواروں کی کامیابی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کیلئے چیلنج بن گئی ہے۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی کے 7 سینیٹرز ریٹائر ہورہے ہیں، ریٹائر ہونے والوں میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین، رحمان ملک، فاروق ایچ نائیک، انجینئر گیان چند، اسلام الدین شیخ، سسی پلیجو اور شیری رحمان شامل ہیں، جبکہ ایم کیو ایم کے 4 سینیٹرز میاں محمد عتیق، محمد علی سیف، نگہت مرزا اور خوش بخت شجاعت ریٹائر ہونگی۔ سندھ میں سینیٹ کی 11 نشتوں پر الیکشن ہونگے اور پیپلز پارٹی 7 سینیٹر منتخب کروانے کی کوشش کررہی ہے، اسی طرح تحریک انصاف ایم کیو ایم اور جی ڈی اے سے اتحاد کرکے سینیٹ کی 5سیٹوں کیلئے کوشاں ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ تحریک لبیک اور جماعت اسلامی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کی حمایت حاصل کرنے کا ٹاسک بھی اہم صوبائی وزراء کے حوالے کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی سندھ کے صدر اور ورکس اینڈ سروسز کے صلاح کار نثار احمد کھوڑو کو سینیٹر بنانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے، صوبائی وزیر ہری رام کشوری لال کو بھی سینیٹ ٹکٹ کی آفر دی گئی ہے اور ان کے بیٹے کرن ہری رام کو سینیٹر منتخب کروایا جائے گا، اس کے بدلے ہری رام کشوری لال سے محکمہ خوراک واپس لیا جائے گا، اگر ہری رام نے آفر قبول نہ کی تو صوبائی وزیر مکیش کمار چاولہ کو سینیٹ کا انتخاب لڑنے کی پیشکش کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی سلیم مانڈی والا، فارو ق ایچ نائیک، شیری رحمان اور عاجز دھامراہ کو دوبارہ سینیٹر بنانے پر غور کررہی ہے، جبکہ ورکس اینڈ سروسز، خوراک اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے خالی ہونے کی صورت میں دیگر پی پی ایم پی ایز کو دے کر وزیر بنایا جائے گا۔ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے مرکزی رہنمائوں فرحت اللہ بابر اور قمرزمان کائرہ کو سندھ سے منتخب کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جبکہ تحریک انصاف وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو سندھ سے سینیٹر بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، اس کے علاوہ دادو سے تعلق رکھنے والے لیاقت علی جتوئی کا نام بھی زیر غور ہے۔ دریں اثناء سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی سلیکٹڈ ایوانوں سے سینیٹر کیسے منتحب کروائے گی اور پھر استعفوں کا کیا ہوگا؟ اگر ایم کیو ایم اپنی سیاسی موت چاہتی ہے تو سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی سے اتحاد کرلے۔ جرأت سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایم کیو ایم ، جی ڈی اے کے ساتھ مل کرسینیٹ الیکشن میں حصہ لیں، ہمارے پاس 69 ایم پی ایز ہیں ، سینیٹ کی جنرل نشست پر کامیابی کیلئے 21 ایم پی ایزکے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے اورہم 3 جنرل سیٹوں پر کامیاب ہونگے، ٹینکنوکریٹ اور عورتوںکی ایک نشست پر کامیابی کی کوشش ہوگی۔سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈی والا کے ریٹائر ہونے سے سینیٹر ز کے انتخاب کے بعد ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب حکومت اور حزب اختلاف کیلئے امتحان بن گیا ہے ،پیپلز پارٹی نے سلیم مانڈی والا کو دوبارہ سینیٹربنانے کا فیصلہ کیا ہے، اگر ڈپٹی چیئرمین کیلئے الیکشن ہوئے تو حکومت اور اپویشن میں تاریخی دنگل ہوگا، سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے سے اپوزیشن کو شدید دھچکا لگا تھا۔سینیٹ آف پاکستان میں پیپلز پارٹی کے 8 سینیٹرز سال 2024 میں ریٹائر ہونگے، ان سینیٹرز میں میاں رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، کرشنا کولہی، ڈاکٹر سکندر مندرو، محمد علی شاہ جاموٹ، قرت العین مری،انجینئر رخسانہ زبیری، امام الدین شوقین اور انور الدین شامل ہیں، ایم کیو ایم فروغ نسیم اور فنکشنل لیگ کے سید مظفر حسین شاہ بھی سال 2024 تک سینیٹ میں موجود ہونگے۔ جبکہ ٹنڈوالہیار سے تعلق رکھنی والی مسلم لیگ (ن) کی رہنما راحیلہ مگسی بھی فروری میں ریٹائر ہونگی، راحیلہ مگسی کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد سے منتخب کروایا تھا۔