میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عمران خان اور راج یوگ

عمران خان اور راج یوگ

منتظم
اتوار, ۳۱ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

اُس کی باتوں سے عیاں تھا کہ اُسے اپنے علم پر غرور نہیں عبور ہے ۔شاید ہی چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گذرا ہو وہ بتا رہا تھا کہ ’’ راج یوگ ُ ‘کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ ہر قسم اپنے مختلف اثرات رکھتی ہے اور اس کا اثر دوسری اقسام سے خاصا مختلف ہوتا ہے ۔ ’’راج یوگ‘‘ کو جس قدر شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے وہ کسی دوسرے یوگ کے حصے میں نہیں آئی ۔اُس نے پورے یقین کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ یہ یوگ حکمرانوں اور بادشاہوں یا مہاراجوں کے زائچوں میں پایا جاتا ہے ۔ اس بارے یہ نظریہ بہت نظریاتی اور بنیادی ہے کہ ’’ راج یوگ صرف راجوں اور مہاراجوں کے زائچوں میں ہی پایاجانا چاہئے ۔‘‘

اُس کی یہ ساری تمہید آئندہ الیکشن میں عمران خان کی فیصلہ کن کامیابی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب کا آغاز تھا ۔۔ اُن دنوں کی سیاسی فضا پاکستان تحریک انصاف کے حق میں عوامی سطح پر مناسب ہونے کے باوجود زیادہ سازگار نظر نہیں آرہی تھی ۔ مجھے اُس کی باتیں اپنے وسوسوںکی وجہ سے خاصی ہلکی محسوس ہو رہی تھیں ۔’’نبھاس یوگ ‘‘اور ’’راج یوگ‘‘ کی باتیں اور زائچوں کی دنیا میرے یقین کو اپنے قابو میں لانے سے قاصر تھی۔ میرے سوال کا جواب اگرچہ میری خواہش کے عین مطابق تھا لیکن بہت سی باتیں میرے سر کے اوپر بلکہ بہت اُوپر سے گذر گئیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے مجھے علم اعداد اور ستارہ شناسی کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے ۔

بدلتی دُنیا میں مارکیٹنگ کے لیے نت نئے حربے اختیار کیے جا رہے ہیں ۔ سروے رپورٹس تیار کرنے والی کمپنیوں اور فرموں کا کاروبار پورے عروج پر ہے ۔ ان میں سے اکثر اداروں کو بھاری رقوم ملتی ہیں ۔ بعض کے سروے برائے فروخت ہونے کے ساتھ ساتھ آرڈر پر بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ہم تو روزانہ اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن بہت سے سادہ لوگ متائثر ہو جاتے ہیں ۔ اکثر یت کو 2018 ء میں انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دیتے ۔ ایسا سمجھنے اور سوچنے والوں میں بیورکریسی کی اکثریت بھی شامل ہے ۔ آنے والے سال میں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ واضح ہونا ابھی باقی ہے لیکن جنہیں انتخابات کی چاپ سنائی دیتی ہے وہ تیاری میں مصروف ہیں ۔

پاکستان کی آئندہ حکومتوں کے بارے میں سروے رپورٹوں کا بزنس عروج کی طرف جا رہا ہے ۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو پیشن گوئیوں اور سروے رپورٹوں پر بغیر تحقیق کے ایمان لے آتے ہیں ۔ ہماری ماضی کی سیاست میںسید مردان علی شاہ مرحوم( پیر صاحب آف پگارو) کی سیاسی پیشن گوئیاں کافی مقبول رہی ہیں ۔ انہی کی اقتداء میںشیخ رشید احمد نے بھی پیش گوئیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ عارف ہونے کا دعویٰ منظور احمد وسان بھی کرنے لگے ہیں وہ کھُلی آنکھوں سے دیکھے گئے اپنے خوابوں کو حیرتوں کا جہان بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور پھر تعبیر آنے پر خود پریشان ہوجاتے ہیں ۔

بحرحال خلق خدا عارفوں سے محروم نہیں ۔ نگاہ ِولی کی تاثیر کے ساتھ عارف کی دُوربینی سے بھی انکار نہیں ۔علم الاعداد اور علم نجوم پر دسترس رکھنے والے بھی اپنے علم ، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر پیشن گوئیاں کرتے ہیں ۔ یہ پریکٹس کافی متائژکن ہوتی ہے ایسی پیش گوئیاں حاصل کرنے کے لیے سیاستدان ، بڑے بیوروکریٹس اور مالدارلوگ کئی کئی جتن بھی کرتے ہیں ۔

محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ خیبر پختونخواہ کے ایک بزرگ کے پاس حاضر ہوتی تھیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ چھڑی مارتے ہیں جس سے خوش بختی کے در وا ہوجاتے تھے ۔ سب جانتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے وزارت عظمیٰ سے اپنی پہلی بر طرفی کے بعد نواب جہانگیر ابراہیم(پیر ابرا) کی نیاز مندی اختیار کر لی تھی ۔ اور ان کے کہنے پر انہوں نے دریائے راوی کے پانی میں کھڑے ہو کر ایک وظیفہ بھی کیا تھا ۔ نواب جہانگیرابراہیم لاہور کے ایچی سن کالج سے فارغ التحصیل تھے قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان میانوالی کی گلی کلوریاں میں آکر آباد ہو گیا تھا ۔ ان کی خاندانی دُکان ’’ دہلی دوا خانہ ‘‘ کے نام سے اب بھی شہر کے مین بازار میں واقع ہے ۔ آصف علی زرداری کے دور صدارت میں ان کے پیر صاحب کی پریذیڈنسی میں آمد ورفت بھی کافی مشہور ہوئی تھی ۔

درگاہوں اور اولیائے کرام سے راجوں ، مہاراجوں ، بادشاہوں اور شہنشاہوں کی وابستگی کے واقعات سے برصغیر کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ طوالت کا خوف دامن گیر ہے اس لیے کالم میں صرف ماضی قریب کے ایک دو واقعات پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔

اپنے موضوع ’’ راج یوگ ‘‘ کی طرف واپس پلٹتے ہیں ۔ عمران خان کی آئندہ کی سیاسی کامیابیوں کے بارے میں اُن صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ عمران خان کی تاریخ پیدائش پانچ اکتوبر 1952 ء بمقام لاہور دوپہر گیارہ بجکر پنتالیس منٹ کے مطابق بنائے گئے زائچے کا جائزہ لیا جائے تو بہت زیادہ دلچسپ صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ اس میں ایک نہیں کئی یوگ تشکیل پا رہے ہیں ۔ اس کے ’’خانہ ہائے اوتاد‘‘ اور’’ خانہ ہائے تثلیث ‘‘کا مطالعہ ان کی زندگی کو بہت واضح کرتا ہے ۔ انہوں نے جو زائچہ اُس وقت مجھے دکھایا تھا وہ میری سمجھ سے بالاتر تھا ۔ اُس حوالے سے ’’ ملاویا یوگ ‘‘ کی موجوگی کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ ایسا ہونے سے مخالف صنف میں مقبولیت کی حدیں لا محدود ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہاں’’ مہاپری پرتن یوگ‘‘ بھی ہے اور قمر و مشتری ، عطارد و شمس اور تنہاء عطارد کی تشکیلات سے جو اشارے ملتے ہیں وہ جہاں صاحب حیثیت اور اقتدار کی نشاندہی کرتے ہیں وہاں مریخ کی ساتویں گھر پر نگرانی اور اسی گھر میں یورینس کی موجودگی ازدواجی زندگی کو مشکلات سے دوچار کرتی ہے جوطلاق کا باعث بھی بنتی ہے ۔ عمران خان کے زائچے میں تین یا تین سے زیادہ سیارگان ذاتی بُرج یا شرف کے بُرج میںآکر’’ خانہ ہائے اوتاد‘‘ کو مقبوضہ بنائے ہوئے ہیں ۔ اس پر تمام ماہرین نجوم و علم الاعداد کا اتفاق ہے کہ حاملِ زائچہ مشہور بادشاہ بنے گا ۔ آخر میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’’پنجم مہاپرش یوگ‘‘ بھی راج یوگ جیسی تاثیر کا حامل ہے ایسے ہی’’ ایڈولف ہٹلر اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زائچوں میں بھی ’’ پنجم مہاپرش یوگ ‘‘ کی نشاندہی ہوئی تھی ۔

ملکی سیاست پر بے یقینی کے سائے ابھی تک گہرے ہیں ایک طرف احتساب جاری ہے تو دوسری طرف این آراو کے خدشات سر اُٹھا رہے ہیں ۔ لیکن حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے وہم کی زمین سے یقین کاشت کرتے نظر آ تے ہیں ۔ عمران خان ہمارے دوسرے سیاستدانوں سے خاصا جُدا ہے ۔وہ زندگی کے ابتدائی ایام سے روحانیت پر یقین رکھنے اور عارفوں کے قریب رہنے والا ہے ۔ ویسے بھی مرشد اقبال ؒ نے خودی کے بادشاہوں کا مقام ’’بادشاہی ‘‘قرار دیا ہے ۔
کپتان آج بھی ’’ روہی ‘‘ کی کھری اور سُچی ریت سے معرفت کا فیض حاصل کرنے کی سعی میں ہے ۔۔ جس طرح زائچہ میری سمجھ سے بالاتر تھا ۔ باالکل اُسی طرح مجھے اس بات کی بھی باالکل سمجھ نہیںآ رہی ہے کہ میانوالی کے سید نصیر شاہ کا یہ شعر مجھے بار بار کیوں یادآرہا ہے ۔

اُس نے جب میرے قلم کو توڑ کر پھینکا اک طرف
مرا بچہ اُس گھڑی مجھ کو بڑا زیرک لگا


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں