سفر یاد....قسط36
شیئر کریں
شاہد اے خان
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دےدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو کسی نے بھی کھانا شروع نہیں کیا تھا، ہم سب نے اپنی اپنی روٹی اور کباب سے انصاف کیا، انصاف تو منیب کی والدہ نے بھی کبابوں کے ساتھ خوب کیا تھا پوری محبت اور توجہ سے بنائے تھے، ایسے لذیذ کباب دوبارہ کھانے کو نہیں ملے۔ کھانا ختم ہوا لیکن پیٹ کسی کا بھی نہیں بھرا تھا بس گزارہ ہو گیا تھا۔ پردیس میں اتنا بھی غنیمت ہے۔ جن پر گزرتی ہے صرف وہی جان سکتے ہیں کہ پردیس کیا بلا ہے کیسی اذیت کا نام ہے پردیس ، یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو یہ سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ ایسی عجیب سی تنہائی کا عالم کہ بیشمار لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلاپن ہو، ہے نا عجیب سزا، مگر حالات اور انسانی ضروریات کی وجہ سے بندہ یہ سزا قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔کبھی بیماری کی حالت میں کمرے میں پڑے رہنا، تنہا اور اداس، کمرے کی گھٹی فضا، سگریٹ کا دھواں اور بو، بکھری چیزیں، میلی چادر، پھٹا ہوا پردہ، بکھری سوچیں، یہ سب کیا ہے یہ پردیس میں رہنے کا بونس ہے۔پردیسی جب بیمار ہوتا ہے تو کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، پانی کا ایک گلاس پینے کیلیے بھی اسے خود ہی اُٹھنا پڑتا ہے، ڈاکٹر کہتا ہے نرم غذا کھاﺅ اور آرام کرو، لیکن پردیس میں کون اس کو نرم غذا پکاکر دے گا، نہ تو بیٹی پاس ہوتی ہے، نہ بہن نہ ماں اور نہ بیوی…. پردیس میں بیچارہ آرام بھی کیسے کرے کہ کونسا اُس کے پاس ماں یا بیوی ہوتی ہے کہ جن کے گھٹنے پر سر رکھ کے سو سکے۔ بس وہ روٹی کے کچھ ٹکڑے کھاکر بازوﺅں کا سرہانہ بناکر آہوں اور سسکیوں کے بیچ کہیں سوجاتا ہے اور ایک عمر پردیس میں گزار کر گھر والوں کو معاشی خوشحالی دینے والا یہ بندہ جب وقت کی مار کھا کر اور اپنی حصے کی بیگار کاٹ کر واپس لوٹتا ہے، تو اپنے ملک میں کچھ بھی اس کا نہیں ہوتا۔ پردیس میں گزرے لمحے دیمک کی طرح سب کچھ چاٹ چکے ہوتے ہیں، معاشرے میں ان فِٹ سا کردار، سنکی کھانستا ہوا بوڑھا وجود…شائد، ایسا ہی ہے پردیس۔۔ ہم لوگوں نے بھی روٹی کباب کھا کر اور پانی پی کر خدا کا شکر ادا کیا اور ایک دوسرے کی کہانی سننے اور اپنی کہانی سنانے میں لگ گئے۔ سب کی سعودی عرب آمد کا ایک ہی مقصد تھا یعنی اپنے گھر والوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا۔ سب ہی اپنے ملک میں اپنی معاشی حالت سے پریشان تھے یہاں آکر شائد معاشی حالت تو تھوڑی بہتر ہو جائے گی لیکن زندگی کے وہ قیمتی لمحے جو اپنوں کے بغیر زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترسائیں گے ان کی قیمت کون دے گا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔۔
گپ شپ میں وقت تیزی سے گزرا کب رات کے گیارہ بج گئے پتہ بھی نہیں چلا، ہمیں صبح جنادریہ کالج جانا تھا اس لیے باقی چاروں سے اجازت طلب کی اور سونے کیلیے لیٹ گئے۔ صبح اٹھ کر وہی روٹین یعنی بقالے سے جوس اور بن لینا، کام پر جانے کی تیاری اور پھر وین کا انتظار۔ فرق صرف اتنا تھا کہ گاڑی نکل جاتی تو جنادریہ کیمپ سے تو پیدل بھی کالج جا سکتے تھے یہاں سے ایسا ممکن نہیں تھا اس لیے وین کے آنے سے پہلے اپنے کمرے سے نیچے پہنچنا ضروری تھا۔ پہلا دن تھا اس لیے ہم کافی جلدی نیچے آگئے۔ باہر گلی میں کھڑے نہیں ہو سکتے تھے اس لیے ولا کے چھوٹے سے لان کے پاس بیٹھ گئے۔ لان کیا تھا کچھ انتہائی ڈھیٹ قسم کے پودے تھے جو شدید گرمی اور سخت موسم کے باوجود کسی نہ کسی طرح سر اٹھائے کھڑے تھے۔ سوکھے ہوئے خزاں رسیدہ سے نظر آنے والے پودوں کو شائد کئی روز سے پانی نہیں ملا تھا۔ ہم نے ادھر ادھر تلاش کیا تو پانی کا پائپ مل گیا ۔ پائپ کا ایک سرا قریب موجود ایک نلکے میں پھنسایا اور نل کھول دیا۔ سوکھے اداس پودوں کو آب حیات مل گیا، ہم نے لان میں لگے سبھی پودوں کو پانی سے نہلا دیا، اس دوران ہمارے کپڑے بھی کچھ گیلے ہو گئے لیکن ان پودوں کو مسرور دیکھ کر ہمیں اس وقت جتنی خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ انہیں پانی دینا توہمارا روز صبح کا معمول بن گیا، آنے والے دنوں میں ہماری لان میں لگے پودوں سے دوستی مزید پکی ہوتی چلی گئی۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭