ہماری سیاست نئے دوراہے پر کھڑی نظر آرہی ہے
شیئر کریں
محمد اشرف قاضی
یہ بات درست نہیں تو کیا ہے کہ آج ہماری قومی سیاست کا کوئی کلیہ قاعدہ، اصول اور ضابطہ نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ قوم 70 سال سے یہ تماشہ اور بھیانک کھیل دیکھتی آرہی ہے۔ آج ہماری سیاست ایک ایسا طرفہ تماشہ بن چکی ہے کہ قوم کو کسی سیاست اور سیاستدان پر یہ یقین ہی نہیں آرہا کہ اس سیاست میں ہمارے روشن مستقبل کی امیدیں محسوس ہورہی ہیں اور جس نے بھی سیاسی دکان کھولی اس نے ابتدائی انداز میں و ہی مظاہرہ کیا جو دکاندار اپنی نئی دکان کھول کر سستا اور اصلی سودا بیچ کر عوام کو مرعوب کرتا ہے جب وہ یہ دیکھتا کہ عوام اب اسی کی دکان ہی کو اپنی ضرورت کا سرمایہ افتخار سمجھ کر اسی سے وابستہ ہوچکی ہے تو پھر وہ اپنی جعلی دکانداری کا کام شروع کرکے کھوٹے بٹے استعمال اور نقلی سامان فروخت کرنا شروع کردیتا ہے۔ ہم سیاست کو بھی اسی دکاندار کی دکانداری سے منسوب کرکے اپنا کردار موذن ہی کا ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے اندر یہ احساس بھی موجود ہے کہ ہماری تحریر نقارخانے میں طوطی کی آواز بن چکی ہے اور ہماری صداقت کی اذان کو کوئی سننے کیلیے تیار نہیں ہے۔ اگر یہ درست نہیں ہے تو پھر ہم بھی سیاست کے صحرا میں بھٹکے ہوئے مسافر نہ ہوتے، پاکستان تحریک انصاف بھی جب میدان سیاست میں اُتری تو عوام اس کی طرف اسی طرح لپک پڑی جس طرح عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے مستقبل اور سیاست کا محور بنادیا، مگر اس کی سیاست ،بصیرت اور صلاحیت کا سورج طلوع نہ ہوسکا اور بہت جلد غروب ہوگیا۔ آج ایسی بے شمار سیاسی جماعتیں ہیں جو پاکستان کے قیام سے چلتی آرہی ہیں، مگر وہ بھی نظریہ پاکستان کے پرچم کو سنبھال نہ سکیں اور بعض قومی جماعتیں راستے میں ہی کھڑی رہ گئیں،کئی قصہ پارینہ بن گئیں۔ ہم پاکستان مسلم لیگ اور پھر دوسرے عشرے میں وجود میں آنے والی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو قومی سطح اور معیار کی جماعتیں ضرور سمجھتے ہیں لیکن ان کا بھی کردار سیاسی بستر مرگ پر پڑا رہا اور یہ بھی کوئی ایسا کردار ادا کرنے کامیاب نہ ہوسکیں جس سے تکمیل پاکستان کا خواب شرمندہ¿ تعبیر دکھائی دیتا، ہم نے عمران خان کی سیاست کو اُس وقت قومی سیاسی سرحدوں کی طرف بڑھتے دیکھا اور کامیابی کی معراج کی طرف پرواز کرتے دیکھا جب وہ پختون خوا کی صوبائی حکومت کے زمام کار کو ہاتھ میں لیتے دیکھا، ہم نے تو آغاز میں ہی یہ پیش گوئی کی اور صدائے صداقت دی تھی کہ اگر عمران خان نے اس صوبے کی تعمیر و ترقی، خوشحالی، امن اور قانون و ضوابط کی تاریخ رقم کردی تو کوئی طاقت اس تحریک اور قائد کیلیے ایوان وفاق کا راستہ نہیں روک سکتی اور عوام کو یہ بتادیں گے کہ بیدار اور ہوشمند سیاست ہی قوم کا وہ سرمایہ افتخار بنتی ہے جس کے راستے میں کوئی طوفان اور زلزلہ نہیں آسکتا، لیکن عمران خان کی تمام تر صلاحیتوں اور حب الوطنی کے باوجود بڑی تیز رفتاری کے ساتھ سفر اپنی منزل سے دور نکلتا نظر آرہا ہے اور ہم گہری تشویش میں رہے اور ہمیشہ یہ بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی کہ قومی احیاءکی سربلندی اور وقار کے پرچم کو بلند رکھنے کیلیے یہ ضروری ہے کہ اپنے نظریاتی گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر انہیں بے لگام نہیں کرنا چاہیے اس سے خود اپنا سفر متاثر ہوکر تو رہ جاتا ہے مگر کسی کا کچھ نہیں بگڑتا، ہمیں عمران خان کو یاد دلانے میں کوئی عار نہیں کہ آپ کے ارد گرد جمع ہونے والے لوگ سیاسی مقاصد کے حرف ابجد سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی نظریاتی سمجھ ان کے پاس ہے۔ آپ ان کا جمعہ بازار ضرور لگائیں لیکن قوم کے روشن مستقبل کا پرچم ان کے سپرد نہ کریں، عوام ابھی بھی آپ سے نا امید نہیں لیکن آپ کی سیاسی و نظریاتی جدوجہد میں ایسی کمزوریاں محسوس کی جارہی ہیں جو مایوس کرتی ہیں۔ اختلافات سیاست کا حسن و جمال ہےں لیکن یہ اُس وقت بے مقصد اور بد نما ہوتے ہیں جب اختلاف برائے اختلاف کا زینہ چڑھتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ باہمی ادب و احترام سے لے کر افہام و تفہیم تک کا رشتہ اور تعلق برقرار رہنا چاہیے، عوام تو اپنا فیصلہ وقت پر ہی کرتی ہے، اس لیے انتخابات کے انتظار میں اپنا وقت فقط اختلافات میں ضائع نہیں کرنا چاہیے، شاید کہ اترجائے کسی کے دل میں میری بات۔
٭٭