سینٹرل جیل میانوالی کا پھانسی گھاٹ‘شہادت گاہِ غازی علم دین شہید
شیئر کریں
جیل یا عقوبت خانے کا تصور یا تاثرکبھی خوشگوار نہیں ہوتا۔۔۔ پھانسی گھاٹ تو ہوتا ہی خوف اور دہشت کی علامت ہے۔انسان کو اپنا سکون اور جان بہت عزیز ہوتی ہے۔ اس لیے جیل جانا کسی کو بھی پسندیا قبول نہیں ہوتا۔ زمانہ قدیم سے مجرموں کوسزا دینے کے لیے جیل خانے قائم کیے جاتے ہیں ۔ پرانے زمانے میں بادشاہ اپنے مخالفین کے لیے بھی جیلیں بنواتے تھے۔پاکستان میں سرکاری طور پر باقاعدہ جیلوں کے قیام کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں قبائلی سرداروں اور ملک کے دیگر علاقوں خاص کر بعض سندھی وڈیروں کی جانب سے بھی اپنی جیلیں اور عقوبت خانے قائم کرنے کے بارے میں پڑھنے اور سُننے کو ملتا رہتا ہے ۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں بڑی بڑی جیلیں قائم ہیں ان تمام کا اپنا اپنا پس منظر اور تاریخ ہے ۔ پنجاب کے دوردراز علاقے میانوالی کی سینٹرل جیل کی وجہ شہرت یہ ہے کہ اس کا پھانسی گھاٹ 31 ۔اکتوبر 1929 ء کو ( آج سے 88 سال قبل ) غازی علم دین کی شہادت گاہ بنا تھا ۔
یہ جیل 1904 ء میں میانوالی شہر کے مشرقی جانب میانوالی تلہ گنگ ( راولپنڈی ) روڈپر تعمیرکی گئی تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ علاقہ شہر سے باہرکی ایک ویران اورسنسان جگہ تھی۔ 1913 ء میں اسے ڈسٹرکٹ جیل کا درجہ دیا گیا ۔ مئی 1960 ء میں سینٹرل جیل بنا دیا گیا ۔ سینئر گریڈجہانگیر خان اس سینٹر جیل کے پہلے سپریٹنڈنٹ تھے ۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں اس جیل میں اہم شخصیات پابند سلاسل رہیں جن میں غازی علم دین شہید ، بگھت سنگھ ۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، اختر علی خان ، مولانا احمد سعید دہلوی ، مولانا داؤد غزنوی ،عبد العزیز انصاری ، مولوی لقاء اللہ ، صوفی اقبال ، راجہ غلام قادر ، مولانا عبد اللہ دہلوی (چوڑی والے )سردارسردول سنگھ کویشر ، سردار منگل سنگھ ، ڈاکٹر سیہ پال ، لالہ گردھاری لال امرتسری ، لالہ تلوک چند ، دیش بندھو گپتا ، مولانا عبد الستار خان نیازی ، مولانا مودودی ، مولانا عبد المجید سالک ، ذوالفقار علی بھٹو ، اکبر بُگٹی ، احمدعلی قصوری ، غوث بخش بزنجو ، خان عبد القیوم خان ، رسول بخش تالپور، نوابزادہ ملک اسد خان آف کالاباغ ، چراغ بالی ،غلام حیدر وائیں ، جاوید ہاشمی ، اور مولانا حقنواز جھنگوی نمایاں ہیں ۔
لیکن اس جیل کو شہرت ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کی خاطر راجپال کو واصل جہنم کرنے والے غازی علم دین کی آمد سے ملی ۔ جیل میں اُس کال کوٹھڑی (Death Cell ) کو جہاں غازی علم دین شہید نے اپنی زندگی کے آخری ستائیس دن (14 اکتوبر1929 ء سے 31 اکتوبر1929 ء) قیدمیں گزارے تھے ۔ اب ایک یاد گار کے طور پر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ غازی کی اسیری کے ان ایام نے اس جیل کی شہرت کو جغرافیائی سرحدوں سے آزاد کر دیا اور دنیا بھر میں میانوالی جیل کو جانا جانے لگا ہے ۔
جیل ذرائع کے مطابق قیدیوں اور حوالاتیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہاں بیٹھ کر تلاو ت کریں اور نوافل ادا کریں ۔ اور اکثر قیدی یہاں آکر آقائے نامدار تاجدار انبیاء رحمت العالمین ﷺ پر درود و سلام پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یوں تقریباً ہر روز ہی سینٹرل جیل میانوالی کے اس گوشے میں درودو سلام کی بہار رہتی ہے۔یہ بھی بتایا جا تا ہے کہ سزائے موت کے قیدی آپنی آخری رات اسی ڈیتھ سیل میں تلاوت اور نوافل ادا کرتے ہوئے بسر کرتے ہیں ۔
غازی علم دین شہید کے حوالے سے اس جیل کی کہانی سرشاری و الہانہ پن سے بھری پڑی ہے۔ ملعون راجپال کے قتل کے الزام میں جب عدالت کی جانب سے غازی علم دین کو سزائے موت سنائی گئی تو پورے ہندوستان میں شورش بر پا ہو گئی تھی ۔ سزائے موت کے حکم پر عملدرآمد کے لیے غازی علم دین شہید کو پنجاب کے دوردراز علاقے میانوالی جیل کے سکیورٹی وارڈ ( بیرک ) 6 کوٹھڑی ( چکی ) نمبر10 میں چار اکتوبر1929 ء کو منتقل کیا گیا ۔
غازی علم دین شہید کا ریکاردڈ جیل کے جس رجسٹر میں درج ہے اُس پر رجسٹر نمبر 2 اورایڈیشن 1457 ء درج ہے ۔ اس رجسٹر کے باہر کی جلد پر جلی حروف میں ’’ریکارڈ غازی علم دین شہید ‘‘ تحریر ہے ، لیکن اس میں صرف ایک صفحے پر غازی علم دین شہید کے بارے میں چیدہ چیدہ معلومات درج ہیں ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس صٖفحے پر نام کے خانے میں حیران کن طور پر نام دو مرتبہ غلط تحریر ہونے پر کاٹا گیا تھا اور تیسری مرتبہ درست نام لکھا گیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نام لکھنے والا کس قدر پریشر میں تھا ۔حالانکہ اُن دنوں غازی علم دین کا نام پورے بر صغیر میں مشہور ہو چُکا تھا ۔ غازی کے نام کے ساتھ ساتھ ان کے والد کا نام طالع مند بھی تحریر کیا گیا ہے ۔ یہاں رجسٹر پر غازی علم دین شہید کے انگوٹھے کا نشان بھی محفوظ ہے ۔ ریکارڈ کے مطابق ان کا قد پانچ فٹ چھ انچ تھا ۔ اس کے نیچے والے خانے میں ایجوکیشن کی تفصیلات کے سامنے NIL لکھا ہوا ہے ۔ عمر اٹھارہ سال درج ہے ۔ ان کی صحت کے حوالے سے لکھا ہوا کہ سخت محنت کر سکتا ہے ۔ اسی صفحے پر بائیں خانے میں غازی علم دین کی اشیاء ایک ترتیب سے لکھی گئی تھیں ۔ میانوالی جیل میں غازی کا اثاثہ کُرتا ، واسٹک ، پاجامہ ، دوجوڑے جوتے ، چادر اور تسبیح پر مشتمل تھا ۔
جیل میں غازی علم دین شہید کے حوالے سے سب سے دلکش انکشاف میانوالی کے معروف وکیل ملک مشتاق گھنجیرہ کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ 1990 ء کی دیہائی میں سپریم کورٹ کے ایک جج جو ہیومین رائٹس کے حوالے سے میانوالی جیل کا دورہ کررہے تھے کے ہمراہ سینٹرل جیل میانوالی میں وہ فائل دیکھنے کا موقع ملا تھا جس میں غازی علم دین شہید کی میانوالی جیل میں آمد سے لے کر شہادت تک کا ریکارڈ موجود ہے ۔ اُس وقت یہ حیرت انگیز حقیقت ہمارے سامنے آئی تھی کہ جیل سے غازی علم دین شہید کا بلیک وارنٹ غائب ہو گیا تھا یا کر دیا گیا تھا ۔ بلیک وارنٹ گم ہونے کی باقاعدہ جواب طلبی ہوئی تھی ۔ اُس وقت بلیک وارنٹ رکھنے کے لیے الگ خانہ یا کیبن بنا ہوا تھا ۔ جب کسی کا بلیک وارنٹ جیل حکام کو موصول ہوتا ہے وہ اُسی میں رکھا جاتا تھا ۔ لیکن اس مقررہ جگہ سے غازی علم دین شہید کا بلیک وارنٹ غائب پایاگیا تھا ۔ اُس وقت کے ایک آفیسر نے ایک Explanation Note تحریر کیا تھا جس میں بعض جیل ملازمین کو اس کا ذمے دار قرار دیا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے میانوالی جیل میں قیام کے دوران غازی علم دین کی پھانسی کی تاریخ تبدیل ہوئی تھی ۔ اُس وقت کے سپریٹنڈنٹ جیل نے مجسٹریٹ لاہور کو تحریر طور پر آگاہ کیا تھا کہ بلیک وارنٹ گُم ہو گیا ہے ۔لہذا علم دین ولد طالع مند کے دوبارہ بلیک وارنٹ جاری کیے جائیں ۔ اس حوالے سے واضح ہے کہ جیل میں غازی علم دین کے چاہنے والے اور عقیدت مند موجود تھے جنہوں نے ارادتاً بلیک وارنٹ غائب کیے تھے ۔ ان کے اس اقدام سے پھانسی تو نہیں رُک سکی ۔لیکن یہ کچھ عرصہ تک ملتوی ضروری ہو سکتی تھی ۔ ایسا کرنے والوں کی کوشش تھی کہ اس دوران احتجاج کے نتیجے میں شاید غازی کی پھانسی کے احکامات منسوخ کر دیے جائیں ۔
(جاری ہے )