غازی علم دین شہید ؒکے لا ہور ہائی کورٹ کے عدالتی فیصلے کاجائزہ
شیئر کریں
اسلامیان ہندوستان ہمیشہ قافلہ عشق و مستی کے سپہ سالار حضرت غازی علم دین شہید ؒ کے سر تا پاء ممنون رہیں گے کہ جناب حضرت غازی علم دین شہیدؒ نے اسلامیان ہندوستان کے دلوں میں عشق رسولﷺ کی شمع فروزاں کی۔ اِس مقصد کے لیے کو اُنھوں نے کسی یونیورسٹی سے کوئی ڈگری نہیں لی تھی اور نہ ہی کسی تبلیغی مشن میں برسوں ریاضت کی۔ بلکہ علم دینؒ ایک اٹھارہ اُنیس سال کا نوجوان تھا۔ اور پیشے کے لحاظ سے ایک بڑھئی تھا اور سریاں والا بازار لاہور کا رہنے والاتھا۔ یوں بقول حضرت اقبالؒ ” ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا تے اسی ویکھدے ای رہ گئے ” یوں نبی پاک ﷺ کے عشق کے حوالے سے ایک عظیم داستان رقم ہوئی۔
عشق رسولﷺ کا جام حضرت غازی علم دین شہید ؒ کو ہمیشہ کے لیے دوام بخش گیا اور آج بھی علم دین شہید ؒ مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے عشق رسولﷺ کے فروغ کے لیے ایک عظیم مینارہِ نور ہیں ۔جب بھی کبھی کفار کی جانب سے مسلمانوں کے ایمان کی حرارت کو چیک کرنے کے لیے کوئی سازش کوئی گستاخی ہوتی ہے تو حضرت غازی علم دین شہید ؒ کے پیرو کار میدان عمل میں ہوتے ہیں ۔ حضرت عمر ؓ کے عظیم مشن کے علمبردار جناب حضرت غازی علم دین شہیدؒ نے ہمیشہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے۔ حالیہ دور میں ممتاز قادری شہیدؒ بھی حضرت غازی علم دین شہید ؒ کے مشن کے پروانے ثابت ہوئے جب ریاست نبی پاکﷺ کے گستاخوں کو لگام دینے سے قاصر ہوگئی تو پھر کسی نے تو نعرہ مستانہ لگانا تھا۔ موجودہ حکمرانوں نے پہلے تو ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کے بعد اُس فیصلے کو واپس لے لیا۔ پھر پنجاب کے وزیر قانون نے ایسی باتیں کی کہ جس سے یہ ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ موصوف کے نزدیک نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کی کوئی اہمیت نہیں یوں جو کام پہلے کفار کرتے رہے ہے کہ مسلمانوں کا جذبہ ایمانی چیک کو جائے وہی کام ہمارے ملک کے حکمرانوں نے پکڑ لیا ہے۔ اللہ پاک ہمارے اوپر رحم فرمائے۔ آمین۔ راقم نے لاہور ہائی کورٹ میں جو اپیل غازی علم دین شہید ؒ کے کیس کے حوالے سے کی گئی جس میں حضرت قائد اعظمؒ بطور وکیل حضرت اقبالؒ کی خصوصی درخواست پر تشریف لائے اُس کے فیصلے کی تشریح قارئین کے لیے پیش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
نبی پاک ﷺ کی ناموس پر قربان ہونے والے عظیم مجاہد جناب غازی علم دین شہید کی یاد اس طرح زخموں پر مرہم رکھتی ہے جیسے صحرا میں نخلستان۔ تاریخ عالم اُن مبارک ساعتوں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جو مبارک لمحات غازی علم دین نے گستاخِ رسول ﷺ کو جہنم رسید کرنے کے بعد اور تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے گزارے۔ محبت کے انداز اور تقاضے عقل و ادراک کے محتاج نہیں ہوتے ۔ عشق کبھی بھی کسی دنیاوی تقاضے کا پابند بھی نہیں ہوتا۔ عشق رسول ﷺ کی ایمان افروز روشنی مومن کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ محبت رسول ﷺ کی لذت سے مومن کی آشنائی ہر کس وناکس سے اُسے ماورا کرتی ہے۔غازی علم دین شہید کو کہنے کو تو پھانسی دے دی گی۔ لیکن وہ پھانسی حیات جاودانی کا ایسا مشروب غازی صاحبؒ کو پلا گئی کہ پھر اس کے بعد غازی صاحب ایسی روشن راہوں کے مسافر بن گئے کہ جناب محمد رسول اللہﷺ کے پروانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے امید اور آگہی کا روشن مینار بن گئے۔
جس دور میں جناب غازی علم دین شہید کو یہ مقام میسر آیا اُس وقت انگریز کا راج اور ہندووں کی مکاری عروج پر تھی، مسلمان اقلیت میں ہونے کی بناء پر پسے ہوئے تھے۔ ان حالات میں علم دینؒ کو بقول اقبالؒ دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب شے ہے یہ لذتِ آشنائی۔ لذت آشنائی پھر چونکہ چنانچہ کے چکروں میں نہیں آتی ۔وہ تو اطیواللہ واطیوالرسول کی اسیر ہو جاتی ہے۔وہ لوگ جو اُس دور میں رہ رہے تھے اُن کے لیے واقعی یہ بہت بڑا کارنامہ تھا اور اُس دور کے دانشوروں علماء اساتذہ ہر شعبہ زندگی کے افراد نے جناب غازی علم دین شہید ؒ کی قسمت پر رشک کیا ۔میانوالی جیل میں غازی صاحبؒ کو پھانسی دے کر نبیﷺ کے عاشقوں کو ایک نئی جلو نے اپنے حصار میں لے لیا اور عشق ومستی کا قافلہ نہایت کھٹن اور مسائل کے ہوتے ہوئے بھی غازی صاحبؒ کی شہادت پر رب پاک کے حضور سر بسجود ہوا۔ عشق تو نام ہی آقا کریمﷺ کی ذات میں خود کو گم کرنے کا ہے اور یوں نبی پاکﷺ کی عزت وناموس کی خاطر خود کو امر کرنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ لاہور خوش قسمت ہے کہ داتا علیٰ ہجویری کی نگری میں ایک عظیم عاشق ِ رسولﷺجسے غازی علم دین شہید کہتے ہیں نبی پاک ﷺ کی شان پرقربان ہوا اور امر ہوگیا۔
آج جب اس عظیم شخص کو اپنے پیارے نبی پاک ﷺ پر قربان ہوئے اسی سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن غازی علم دین شہید ؒ کا نام اِس طرح لیا جاتا ہے جس طرح کسی بھی زندہ شخص کا نام لینا چاہیے ہوتا ہے ،جبکہ وہ ہستی بھی عاشقِ رسولﷺ ہو۔ ایسا کیوں نہ ہو رب پاک واشگاف الفاظ میں اپنی کتاب قران پاک میں فرماتا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں مارا جاتا ہے وہ زندہ ہے ،تمھیں اِس باات کا شعور نہیں ، حتیٰ کہ شہید کو اللہ پاک کے ہاں سے رزق بھی ملتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ شہید چونکہ زندہ ہے اِس لیے اُس کو مردہ کہنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے ،تاریخ عالم نے بہت سے نیک بندوں کو اپنے رب پاک کی راہ میں جان دیتے دیکھا ہے، حضرت عمار ابن یاسر کے والدین سے محمد مصطفےﷺکے غلاموں کی شہادتوں کا شروع ہونے والا سفر جاری و ساری ہے اور غازی علم دین شہید اسلام کے وہ عظیم پیروکار ہیں جن پر اُمتِ مسلمہ کو فخر ہے۔
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا عشق انسان کو انسانیت کے اعلیٰ وارفع مقام پر لا کھڑا کرتا ہے۔ حضرت بلالؓ حضرت اویس قرنیؓ کے راستے پر چلتے ہو ئے غازی علم دین شہید نے وہ مقام حاصل کیا کہ جس کے متعلق شاعرِ مشرق حکیم الامُت حضر ت علامہ اقبال ؒ پکار اُ ٹھے کہ ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا اور ہم دیکھتے رہ گے۔ یقیناً حضرت علامہ اقبال جیسی شخصیت کی جانب سے غازی علم دین شہید کو بہت زبردست خراج ِ تحسین ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں جب اِس کیس کی اپیل کی سماعت ہوئی تو لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا اس کے مطابق، علم دین بنام ایمپرر اے آ ٰئی آر 1930 لاہور 157کریمنل اپیل نمبر 562 آف 129۔قاتل 19 یا20 سال کا ہے ۔ اور اپنے مذہب کے بانی کے خلا ف کہے جانے والے اور کیے جانے والے فعل پر ناراض ہے ۔ علم دین جو کہ ایک تر کھان ہے اور سریاں والا بازار لاہور شہر کا رہائشی ہے جس نے 6اپریل929 کو راج پال کو قتل کیا اور اِس کو دفعہ 302 کے تحت سزائے موت دی گئی۔
(جاری ہے)