میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
احتساب پرشوروغوغا

احتساب پرشوروغوغا

منتظم
منگل, ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ووفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے گزشتہ روزکراچی میں سیمینار سے خطاب کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ 2013 میں جب حکومت سنبھالی تو ہمیں ایک ہچکولے کھاتی معیشت ملی اور جب پاکستان نے اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا تو سیاست کا میوزیکل چئیرشروع ہوگیا۔ وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم نے قیام پاکستان سے لے کر 70 سال صرف منصوبہ بندی میں گزارے اور جب بھی پاکستان میں اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا تو سیاست کو میوزیکل چیئرشروع کردیا گیا، ایک سیاسی جماعت کے دھرنے نے پاکستان کی ترقی کے 126 دن ضائع کردیئے، اس جماعت کے سربراہ سے کہا تھا کہ 3 روز تک دھرنا نہ دیا جائے لیکن درخواست نہ ماننے پر چین کے صدر کا دورہ منسوخ کرنا پڑا اور یہ دورہ پھر 8 ماہ تاخیر کا شکار ہو گیا۔جب حکومت سنبھالی تو روزانہ کی بنیاد پر 18 سے 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی، امن و امان کی صورتحال بدترین ہونے کے باعث کراچی سے سرمایہ کار بھاگ رہے تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح امن و امان کا قیام تھی اور آج حالات بہتر ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار ملک میں آرہے ہیں جب کہ سرمایہ کاری کی وجہ سے ہی توانائی کے بہت سے پروجیکٹ لگ رہے ہیں ،عوام اس بات کے معترف ہیں کہ 2013 کی نسبت کراچی کے حالات بہترین ہوگئے ہیں ، سندھ دھرتی میں 70 سال سے دفن کالا سونا (کوئلہ) بھی پروجیکٹ کے استعمال میں لایا جارہا ہے اب سندھ کا پسماندہ ترین علاقہ تھر ملک میں توانائی کا مرکز بننے جارہا ہے۔وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ 1947 سے 2013 تک 66 سال کے عرصے میں پاکستان میں 16 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی لیکن ہم 2014 سے 2018 تک 4 سال کے مختصر ترین عرصے میں نیشنل گرڈ میں 10 ہزار میگا واٹ بجلی کو شامل کرکے جائیں گے یہ پاکستانی قوم کی سب سے بڑی کامیابی ہے اوریہ سب سی پیک منصوبے کی مرہون منت ہی سے ممکن ہوسکاتاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ گزشتہ ’’4سال کے دوران نہ کوئی ڈیم بنے نہ اسپتال تو پھر 14800 ارب کا قرضہ کہاں گیا؟‘‘
انھوں نے گزشتہ 4سال کے دوران ہونے والی کرپشن کاذکر بھی گول کردیا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے 4سالہ دور میں ان کے بیٹوں کی کمپنیوں کے منافع میں کتنا اضافہ ہوا ،اور نااہل قرار دئے گئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف شاید احتساب کے ڈر سے پاکستان آنے کے بجائے بیرون ملک سفارشیں تلاش کرنے کے لیے کیوں کوشاں ہیں ، اسحاق ڈار کے اثاثہ جات کو منجمدکیے جانے کے حکم اور ان پرفرد جرم عاید کیے جانے کے بعد اب تک ان کووزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر کیوں فائز رکھاگیا ہے، نیب کے نئے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال کی جانب سے میٹرو بس پراجیکٹ ملتان کے تمام حساب کتاب منگوا نے اور اْس میں مبینہ کرپشن کی کڑیاں تلاش کرنا شروع کیے جانے پر خادم پنجاب پریشان کیوں نظر آرہے ہیں ؟۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا جس سے وزیر داخلہ صرف نظر کرتے نظر آتے ہیں کہ’’کرپشن نے اس ملک کا بیڑہ غرق کردیاہے اور اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، جھوٹ، فریب ، مکر اور مداری سیاست نے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا‘‘ہمارے ملک میں کرپشن صرف سرکاری ملازمین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کرپشن کاناسور ہمارے یہاں نچلی سطح کے بجائے اعلیٰ ترین سطح سے چلتاہے کرپشن کاالزام صرف نواز شریف پر ہی نہیں ہے ملک میں موجود کم وبیش 450 افراد کے نام پانامہ پیپرز میں موجود تھے اْن کا بھی ترجیحی بنیادوں پر احتساب ہونا چاہیے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے نیب نے 150 میگا کرپشن کیسز سے متعلق فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ناموں کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم گیلانی، راجہ پرویز اشرف، چوہدری شجاعت سمیت کئی اہم شخصیات شامل تھیں ۔
ان کیسز میں بڑے کیس، سڑکوں کی غیرقانونی تعمیر ، غیر قانونی بھرتیاں ، ملین پاؤنڈز کی خردبرد، ذرایع آمدن سے زیادہ اثاثہ جات، آئل اینڈ گیس ریگولر اتھارٹی میں بے ضابطگیاں ، توقیر صادق کی تعیناتی، کرائے کے بجلی گھروں کے ٹھیکوں میں مبینہ کرپشن، چوہدری برادران پر مبینہ کرپشن کے الزامات، ظفر گوندل کے خلاف 567ملین روپے کی کرپشن کا مقدمہ ، آر پی پی کیس، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے خلاف 100 ملین کی انکوائری ، سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کے خلاف کرپشن مقدمات ، حسین حقانی پر خورد برد کے الزامات وغیرہ وغیرہ ‘ اس کے علاوہ بلوچستان کے سینکڑوں کیسز زیر التوا ہیں ۔
میگا کرپشن کیس کے ملزمان سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی پر کھربوں روپے کی کرپشن کے الزام ہیں جن کے گھر سے 65 کروڑ 18 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی برآمدکی گئی تھی، اسی طرح سابق مشیر برائے خزانہ اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر خالد لانگو بھی تحقیقات میں مطلوب ہیں ۔ ان کے علاوہ سیکڑوں کیسز ایسے ہیں جو زیر التوا ہیں ۔ اب جس کے خلاف احتساب کامعاملہ آگے بڑھتاہے فوراً شور مچنا شروع ہوجاتاہے کہ ہمیں ہی کیوں نشانہ بنایاجارہاہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ لوگ مرضی کا احتساب چاہتے ہیں اور حکومتیں ایسا احتساب چاہتی ہیں جن میں اْن کو اور اْن کے حواریوں کو کلین چٹ مل جائے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ حکومت کا احتساب ہو اور وہ احتساب سے بچ جائیں ۔
جبکہ موجودہ صورت حال ہمیں احتساب کا ایک ایسا نظام چاہیے جو صاف شفاف ہو۔ اہلکار ہر کسی کے دباؤ اور لالچ سے پاک ہوں ۔ اگر پاکستان میں یومیہ 5 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے تو ماہانہ ہم ایک کھرب 50 ارب کھورہے ہیں ۔ ہم دنیا کی کرپٹ ترین قوموں میں شامل کرلیے گئے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم جس مذہب کے نام لیوا ہیں اْس میں ایمان داری کو بلند ترین مقام دیا گیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ جسے ترقی کہہ رہے ہیں وہ قرضے کی ببل گم سے بنایا ہوا غبارہ ہے جس کو پائیداری حاصل نہیں ۔ حکومت نے ان ساڑھے چار سال میں قرضے کے انباروں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔یہ صحیح ہے کہ اس عرصے میں ہم نے کئی شعبوں میں ترقی بھی کی ہے، مگر ہماری ترقی کو ٹھوس بنیادیں فراہم نہیں کی گئیں ۔
احتساب کے سارے عمل کو بے وقعت کرنے کی کوششوں سے ظاہرہوتاہے کہ ہم نے صحرا میں برف سے ترقی کا محل تعمیر کرنا شروع کردیا ہے۔ ہماری کوئی بھی بنیاد ٹھوس نہیں ہے۔ ہم شعبدہ باز جادوگروں میں گھرگئے ہیں ۔ اس قوم کو ایسا سسٹم چاہیے جس میں کرپٹ افراد خود بخود شکنجے میں آجائیں ، ایسا سسٹم نہیں چاہیے جس میں ایماندار افراد کی جگہ نہ بن سکے، اور وہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں ۔ جب کہ کرپٹ افراد کیلیے یہ ملک جنت بنتا جا رہا ہے۔ کاش ایسا ہو جائے کہ ان ایماندار افراد کو اْن کا ثمر ملے اور کرپٹ ترین افراد شکنجے میں آجائیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ کرپشن کے احتساب کے حوالے سے
ابھی ٹریلر چلنا شروع ہواہے اورلوگوں کی چیخیں نکلنا شروع ہوگئی ہیں اگر احتساب کایہ عمل اپنے منطقی انجام تک پہنچادیاگیا تو کرپشن پر اپنی عمارتیں کھڑی کرنے والے کہاں ہوں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں