جڑواں شہروں میں پی ٹی آئی احتجاج
شیئر کریں
٭…. لاہور میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام ،کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ
٭…. پی ٹی آئی کا شریف برادران پر کمیشن لینے کے نئے انکشافات
٭…. ن لیگیوں ہرجانے کا دعویٰ‘ڈاکٹرز کی ہڑتالیں ،مریض دواﺅں کیلئے ترستے رہے
محمد اویس غوری
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا گزشتہ ہفتہ بھی شدید سیاسی ہنگاموں کا مرکز بنا رہا۔ ایک طرف جہاں سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات اور ہرجانوں کی بوچھاڑ کرتے رہے وہیں پر صوبائی دارالحکومت لاہور میں ڈاکٹرز کے احتجاج اور مریضوں پر تشدد پنجاب حکومت کی نااہلی کا پول کھولتے رہے ¾ مریض دوائیوں کو ترستے رہے اور مسیحا سڑکوں پر آپس میں دست و گریبان نظر آئے۔ شیخ رشید کا جلسہ موٹر سائیکلوں پر بھاگتے ¾ سگار سلگاتے اور بھڑکیں مارتے گزر گیا جبکہ جماعت اسلامی کے امیر جلسوں میں وہی پرانی باتیں کرتے نظر آئے لیکن لاہور میں پاکستان مارچ سے خطاب میں انہوں نے حکمرانوں پر شدید حملے کیے۔
پنجاب میں سیاسی سرگرمیوں کا اس ہفتے آغاز اس وقت ہوا جب تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے شہباز شریف پر الزام لگایا کہ کینیڈین شہری جاوید صدیق ¾ شہباز شریف کے فرنٹ مین ہیں ۔ جو بھی انویسٹر کوئی کام کرنا چاہتا ہے وہ اس میں سے کمیشن لیتے ہیں اور شہباز شریف تک پہنچاتے ہیں اسی لیے جب بھی کوئی نیا پراجیکٹ آتا ہے تو یہ جاوید صدیق کو آگے کر دیتا ہے ۔ عمران خان کے الزامات کے مطابق ملتان تا سکھر موٹروے پر 15ارب روپے کمیشن لیا گیا ¾ 26ارب55کروڑکی کرپشن صرف چار منصوبوں میں ہوئی ¾ نیو اسلا م آباد ایئر پورٹ اور سافٹ ویئر پارک میں بھی کمیشن لی گئی ¾ قائد اعظم سولر پارک میں 7فیصد کنسلٹنسی ادا کی گئی، جاوید صدیق کو ان کا حصہ 5سے 7کروڑ ملتا ہے جبکہ باقی دونوں بھائیوں کی جیب میں جاتا ہے ۔عمران خان نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس کنٹریکٹس کی کاپیاں اور تصاویر ہیں۔ جاوید صدیق کنٹریکٹس میں کمیشن لیتے ہیں کیونکہ وہ ہر فن مولا ہیں، جاوید صدیق اب تک 15ارب روپے کمیشن وصول کر چکے ہیں۔ان الزامات پر شہباز شریف کا صبر کا پیمانہ اس ہفتے لبریز ہو گیا اور انہوں نے عمران خان پر 26ارب 54کروڑ روپے کا ہرجانہ دائر کرنے کا اعلان کر دیا۔ شہباز شریف نے اعلان کیا کہ وہ یہ رقم وصول کر کے عوام میں تقسیم کریں گے لیکن اگر فیصلہ ان کے خلاف آیا تو میں اور میرے بچے ہمیشہ کیلیے سیاست کو خیر آباد کہہ دیںگے ۔شہباز شریف نے اعلان کیا کہ جاوید صدیق میرا فرنٹ مین نہیں اور اگر عمران خان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لائیں۔ ایک طرف شہباز شریف عمران خان کے الزامات کو جھوٹا کہہ کر ان پر ہرجانے کا اعلان کر رہے تھے اور اسی کے تین دن بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق پر ایک ارب روپے ہرجانہ کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان کر دیا ۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نعیم الحق نے مریم نواز پر الزام عائد کیا تھا کہ خبر مریم نواز نے لیک کی تھی اور پرویز مشرف کو صرف قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ ایک طرف ہرجانے کے دعوے ہو رہے تھے تو دوسری طرف اسلام آباد پولیس نے تحریک انصاف کے ایک جلسے پر ہلہ بول دیا جس کے بعد سیاسی طوفان ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں سرگرمیاں عروج پر ہیں وہیں حیران کن طور پر صوبائی دارالحکومت اور دیگر شہروں میں صورتحال یہ سطور لکھنے تک پرامن رہی ہے۔ لاہور میں پولیس نے چھاپے مار کر تحریک انصاف کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا جن میں ٹی وی اداکار کاشف محمود بھی شامل ہیں جن کو بعد میں رہا کر دیا گیا ۔ پی ٹی آئی کے تمام بڑے لیڈر ان مواقع پر چھپے رہے اور لاہور میں احتجاج کی کسی کال میں کسی بڑے لیڈر نے سڑک پر آنے کی زحمت نہ کی جس کے نتیجہ میں پنجاب پولیس کارکنوں کو گرفتار کرتی رہی ۔ پنجاب کے دیگر شہروں ملتان ¾ مظفر گڑھ ¾ ساہیوال ¾ بہاولپور ¾ بہاولنگر ¾ ویہاڑی ¾ لودھراں ¾ جہلم ¾ گوجرانوالہ ¾ بوریوالہ ¾ منڈی یزمان ¾ گجرات اوردیگر شہروں سے کارکنوں کی گرفتاریوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔ لیکن تحریک انصاف کی احتجاج کی کال پر لاہور میں کارکنان کو یہ توفیق حاصل نہ ہو سکی کہ وہ ہزاروں یا سینکڑوں کا مجمع اکٹھا کر کے احتجاج ہی کر لیں ۔کچھ خواتین نے ڈیفنس کی حدود میں احتجاج کیا لیکن اسلام آباد میں 70کارکنان کی گرفتاری کے نتیجہ میں ڈیفنس میں احتجاج کرنے والے ان خواتین کی تعداد بمشکل ایک سو کا ہندسہ پار کر رہی تھی لیکن ان کے ہاتھوں میں موجود ٹماٹروں کی تعداد ضرور 100 سے زیادہ تھی۔ بنیادی طور پر تحریک انصاف کا سیاسی طوفان صرف ٹیلی ویژن چینل یا بنی گالہ تک ہی محدود رہا کیونکہ عمران خان کی احتجاج کی کال کے باوجود راولپنڈی شہر نے اپنے ہی بیٹے شیخ رشید کے ساتھ کچھ ایسا اچھا سلوک نہ کیا۔ وہ سارا دن گلیوں میں پھرتے رہے۔ کبھی کسی گلی سے نکلتے اور کبھی کسی چوراہے پر نمودار ہوتے لیکن جب وہ کمیٹی چوک پہنچے تو ان کے ساتھ 4بندوں کا ”ہجوم “ تھا۔ لیکن انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ ایک نجی چینل کی ڈی ایس این جی کی چھت پر سوار ہو گئے ¾ سگار سلگایا اور جلسہ کی اتمام حجت پوری کر لی ۔
صوبائی دارالحکومت بنی گالہ کے سیاسی طوفان سے تو محفوظ رہا لیکن پنجاب حکومت کی بدانتظامی سے محفوظ نہ رہ سکا جہاں پر اس ہفتے لاہور کا سب سے اہم اور حساس مسئلہ یہ رہا کہ ڈاکٹرز نے پھر ہڑتال جاری رکھی اور سینکڑوں مریض دواﺅں کو ترستے رہے۔ لاہور میںڈاکٹرز کے مطالبات کا مسئلہ کسی دائمی بیماری کی طرح طول پکڑ چکا ہے اور اب عوام کے صبر کا پیمانہ عمران خان ¾ خادم اعلیٰ پنجاب اور مریم نواز کی طرح لبریز ہونے ہی والا ہے جہاں پر ہر دوسرے ہفتے ڈاکٹرز مسیحائی چھوڑ کر ہڑتال کرنے کیلیے سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ اس بار کا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب کچھ ڈاکٹرز کے بارے میں یہ خبریں آئیں کہ وہ مریضوں کے ساتھ انسانی سلوک نہیں کرتے اور اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرتے جس پر انتظامیہ نے کچھ ینگ ڈاکٹرز کا ٹرانسفر کر دیا اور ڈاکٹر شہریار نیازی ¾ ڈاکٹر مظہر رفیق کو معطل کر دیا لیکن اس کے بعد ڈاکٹرز کی بدمعاشی شروع ہو گئی اور انہوں نے علاج کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنی تنظیم کے دیگر ڈاکٹرز کو بھی ساتھ ملا لیا اور احتجاج شروع کر دیا ۔لیکن اس بار ایک خوش آئند بات یہ رہی کہ جہاں ایک طرف شہریار خان نیازی نامی بدمعاش گروپ مریضوں پر تشدد کرنے پر بھی اپنے ڈاکٹرز کی حمایت کر رہا تھا وہیں پر ینگ ڈاکٹرز کے ایک اور گروپ نے ہڑتال کرنے والے ڈاکٹرز کو احتجاج سے روکا اور جب وہ نہ مانے تو احتجاج کے طور پر ان پر انڈے برسائے جس پر ان دونوں گروپوں کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہو گئی ۔ میو ہسپتال میں شہریار خان نیازی گروپ کی جانب سے آﺅٹ ڈورز بند کروانے کا سلسلہ پورا ہفتہ جاری رہا ¾ اسی طرح جناح ہسپتال اور لیڈی ولنگٹن میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ جب اس سلسلے میں محکمہ صحت سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز کے ایک گروپ نے ہڑتال کی کال کو مسترد کر دیا ہے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں لیکن جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ دو ڈاکٹرز کو معطل کرنے پر اگر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج رک جائے تو آپ اس کے سدباب کیلیے کیا کررہے ہیں تو ان کے پاس اس کا کوئی شافی جواب نہ تھا۔
صوبائی دارالحکومت تحریک انصاف کے سیاسی طوفان کا شکارنہ بن سکا تو جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع ارکان وکارکنان میں کافی تعداد میں کارکنان نے شرکت کی ۔ وحدت روڈ گراﺅنڈ میں عارضی شہر بسایا گیا ¾ یہ اجتماع تین روز تک جاری رہا جس میں جماعت اسلامی کے کارکنان اپنی روایت کے مطابق بھرپور تعداد کے ساتھ شریک ہوئے ۔ اجتماع میں امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد ¾ امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد ¾ نائب امرا جماعت اسلامی پاکستان حافظ محمد ادریس ¾ راشد نسیم ¾ امیر گوجرانوالہ ضلع عبداللہ گوہر ¾ صدر حصول انصاف زون اجمل جامی و دیگر رہنماﺅں نے شرکت کی ۔صدارتی خطاب میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے وہی موقف اپنایا جو وہ لاہور میں ہونے والی اکثر تقریبات میں بیان کرتے ہیں۔ سراج الحق نے اعلان کیا کہ وہ حکومت اور اپوزیشن میں موجود کرپٹ لٹیروں اور قرضے معاف کروانے والوں کو احتساب کے کٹہرے میں لائیں گے اور اقتدار کے ایوانوں سے نکال کر اڈیالہ جیل میں بند کریں گے لیکن اس کیلیے انہوں نے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی طرح کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ اب دیکھیں وہ کب اس پر عمل شروع کرتے ہیں؟