وطن ہمارا آدھا کشمیر!!!
شیئر کریں
شیخ امین
کالم کے عنوان پر بعض لوگ مسکرانے پر اکتفا کریں گے ،بعض قہقہے بھی لگا سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے اپنی توہین سمجھ کر ،نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے راقم کو ریاست دشمن بھی قرار دے سکتے ہیں۔لیکن میری گزارش ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے کی صرف میں ہی گستاخی نہیں کررہا ہوں بلکہ مظفر آباد سے میرے دوست، معروف کالم نگار اور صحافی سید عارف بہار دس سال پہلے اپنے ایک کالم میں یہ گستاخی کر چکے ہیں۔دس سال کے وقفے کے بعد میں مجبو راََ یہ الفاظ براہ راست کالم کے عنوان کے ساتھ استعمال کررہا ہوں کیونکہ میں نے ان دس سالوں میںحالات میں کوئی کچھ بدلاو¿ نہیں دیکھا،سوچ وہی ہے ۔منظر نامہ وہی ہے ،جو تب تھا۔اب بھی وہی ہے ۔تب کے قومی ترانے میں پڑھا جاتا تھا "تم بھی اٹھو اہل وادی”آج 2016ءمیںبھی وہی بو ل بو لے جارہے ہیں ۔حالانکہ اہل وادی 1947ءسے بالعموم اور1988سے بالخصوص پوری قوت سے اٹھ چکے ہیں ۔صرف پچھلے26 برسوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہادت کے منصب پر سرفراز ہوئے ہیں ۔ہزاروں افراد زخمی ہیں ۔ہر گھر متاثر ہے ۔چہار دیواری متا ثر ہے ۔معصوم بچوں کا مستقبل داو¿ پر لگا ہوا ہے ۔900سے زائد بچوں کی آنکھیں ،پچھلے تین مہینوں میں پیلٹ گن فائرنگ کے نتیجے میں جزوی یا کلی طور پر ضائع ہو چکی ہیں۔لیکن اس سب کے با وجود "ہم کیا چاہتے آزادی اور”گو انڈیا گو©”کے نعرے ہر طرف گونج رہے ہیں۔نریندر مودی جیسا ظالم و سفاک انسان بھی اس جذبے کے سا منے بے بس ہوا ہے ۔۔۔لیکن آزاد کشمیر ریڈ یو ابھی بھی وہی رٹ لگا رہا ہے "تم بھی اٹھو اہل وادی”۔۔۔وطن ہمارا آزاد کشمیر کے بول سنا نے والے ابھی بھی بے خبر ہیں یا جان بو جھ کر بے خبر ہونے کا نا ٹک رچا رہے ہیں ۔معاملہ جو کچھ بھی ہو ،بات رسوائی ہی کی ہے ۔
آزاد کشمیر کے نام سے یہ خطہ کئی معاملات میں کافی ترقی کرچکا ہے ۔اعداد وشمار کے مطا بق شرح تعلیم مملکت پاکستان سے زیادہ ہے ۔کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں سڑک ،بجلی اور پانی کا انتظام نہ ہو۔ہر بستی میں اسکول قائم ہے ۔کالج اور یونیورسٹیوں کی بھی اچھی خا صی تعداد موجود ہے۔لیکن اس سب کے با وجود یہ بات ذہن نشین ہونی چا ہیے کہ یہ حصہ اس ریاست کا حصہ ہے،جس کے مستقبل کا تعین ابھی طے نہیں ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے موجود ہیں ،تاہم بھارت کی ہٹ دھرمی اور طاقت کے بل پر3/4حصے پر اس کا جبری قبضہ ابھی موجود ہے اور جس کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ایک تاریخ ساز جدوجہد جاری ہے۔آزاد کشمیر ان حالات میں عملاََ تحریک آزادی کے متوالوں کے لیے ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے ۔پاکستانی حکومت کا شروع دن سے بھی یہی موقف ہے۔پاکستانی رہنما بھارت کی طرح اس حصے کو اپنا اٹوٹ انگ نہیں کہہ رہے بلکہ با ر بار اس حقیقت کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنا زع خطہ ہے اور اس کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خو د کرنے کا موقع ملنا چا ہیے ۔
لیکن دیکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ بیس کیمپ کو نام تو آزاد کشمیر کا دیا گیا ہے لیکن آدھا کشمیر سمجھ کر،اس کا کردار محدود کردیا گیا ہے ۔کشمیریوں کی عسکری مزاحمت کی مدد تو درکنار ،ابلاغی محاذ کو بھی مظفر آباد کی وادی تک محدود کردیا گیا ۔کچھ دن قبل اے جے کے ٹیلی ویژن مظفر آباد میں ایک ٹاک شو میں جانے کاموقع ملا ۔ٹی وی اسٹوڈ یو کی خستہ حال صورتحال دیکھ کر ہی اندازہ ہوا کہ اس ادارے کوکتنی اہمیت دی جارہی ہے ۔کئی ملا زمین و عہدیداران سے بات کرنے کا موقع ملا ۔پتا چلا کہ اس ادارے کا کنٹرول تو اسلام آباد کے پاس ہے،لیکن ملازمین کو جو تنخوا ہیں ،ترقیاں اور دیگر مراعات مل رہی ہیں،وہ مرکزی ملازمین سے کہیں کم ہیں ۔12سال سے بھرتی ہوئے ملازمین اب تک مستقل نہیں کیے جارہے ۔ حیرت و استعجاب کی حالت میں ،میں نے ایک ذمہ دار سے مختصر سوال پوچھا کہ کیا مرکزی حکومت کو اس ادارے کی اہمیت کا احساس نہیں ۔تو جھٹ سے اس نے جواب دیا کہ جی شیخ صاحب ،احساس تو ہے لیکن ایسا ہی احساس ہے جیسا انہیں تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے ہے ۔بات مختصر تھی لیکن!! بقول پروین شاکر
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
آزاد خطہ با لعموم اور مظفر آباد با لخصوص ترقی کی راہ پر گا مزن ہے ۔ہر طرف تعمیراتی کام جاری ہے ۔کھلی اور چوڑی سڑکیں بچھانے اور شہر کو خوب سے خو ب تر بنا نے کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہورہا ہے ،لیکن اسی شہر میں کشمیریوں کے ترجمان ادارے کو بے بسی اور بے کسی کی علا مت بناکر یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ آدھے کشمیر کی ضروریات اس ادارے سے ہی پوری ہوتی ہیں ،اس لیے اس ادارے کو مزید اہمیت دینے کی ضرورت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آزاد کشمیر کو آدھا کشمیر سمجھنے کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال میں دے سکتا ہوں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔