سفر یاد۔۔۔ قسط اول
شیئر کریں
شاہد اے خان
تیسرے ہزاریے کا پہلا سال تھا، سرکاری نوکری چل رہی تھی،کام کاج کا تردد بھی نہ تھا یعنی سرکاری اہلکاروں کی مانند ہڈحرامی کا دور دورہ تھالیکن دل کو چین نہیں تھا، اطمینان قلبی کی تلاش بھی تھی اور کچھ کرنے کی امنگ بھی ،ابھی دل زنگ آلود نہیں ہواتھا۔ دوسری بات جیب کی تنگی تھی ،سرکار تنخواہ بس اتنی دیتی تھی کہ بائک کے لیے پیٹرول اوراپنے لیے دوپہر اور رات کے کھانے کا انتظام کیا جا سکے۔ بچت نام کا گھر میں ایک روپیہ موجود نہ تھا، مہینے کے آخر میں جیب اکثر خالی ہوتی تھی اور بینک میں اکاﺅنٹ کھولنے کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ایسے میں ایک دن دفتر میں بیٹھے ہوئے خیال آیا کہ یہ روز کا آنا جانا کیوں اور کس کھاتے میں ہے۔ سوچا تنخواہ بس اتنی ملتی ہے جس سے آنے جانے اور کھانے پینے کا انتظام ہو رہا ہے یعنی جو مل رہا ہے وہ بس اس روز کی آمد و رفت کو یقینی بنانے کے لیے ہے اور کچھ نہیں۔ پھر خیال آیا کہ یہ آٹھ دس گھنٹے روز کی مشقت بھلا کس کھاتے میں جا رہی ہے، جواب ملا یہ تو بیگار ہے۔ یہ بے کار کی بیگار کرتے آٹھ سال ہو چلے تھے۔ تو کیا آگے بھی ایسا ہی ہوگا،کیا یہ بیگار اسی طرح چلتی رہے گی ،کیا جیب اسی طرح خالی رہے گی ، کیا ہر ماہ کے آخر میں دوپہر کا کھاناچھوڑنا پڑے گا۔ وہ وقت تھا جب دل نے ارادہ کر لیا کہ بس بہت ہو چکا ،اب اس بیگار سے جان چھڑانا ہوگی ،کچھ کرنا ہوگا۔ دوستوں سے مشورہ کیا ،حالات بہتر بنانے کی کیا تدبیر ہو۔ کسی نے کہا کوئی پارٹ ٹائم کرلو، کسی نے کہا ٹیوشن پڑھانا شروع کردو، کسی نے کہا ملک سے باہر جا کر قسمت آزمائی کرو۔ لیکن اکثر نے سرکاری ملازمت نہ چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ کہا گیا بھائی آج کل سرکاری نوکری کہاں ملتی ہے، لگے رہو گریجیوٹی ملے گی ،فنڈ ملے گا، لیکن کب ملے گا ، ریٹائرمنٹ پر۔ یعنی کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ خیر قصہ مختصربہت سوچنے کے بعد طے پایا کہ ملک سے باہر جا کر قسمت آزمائی کی جائے،یورپ یا کسی مغربی ملک جانے کے لیے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے قرعہ فال عرب ملکوں کے نام نکلا۔ ریکروٹمنٹ ایجنٹ حضرات سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا وہاں جانے اور ملازمت پانے کے لیے بھی کافی پیسے چاہییں۔ کویت بحرین دبئی کی ملازمتوں کے لیے تگڑے پیسے درکار تھے، سعودی عرب میں ایک ملازمت کے لیے قدرے کم پیسے لگنے تھے ،یہاں تنخواہ بھی کم تھی لیکن پاکستان کی سرکاری تنخواہ سے تقریبا تین گنا زیادہ تھی۔ادھر اُدھر سے پیسے پکڑ کر ایجنٹ کودیے، پاسپورٹ دیا اور پھر انتظار شروع ہوگیا۔ جیسے جیسے دن گزر رہے تھے ،دل میں وسوسوں اور خدشات کی فصل پکتی جا رہی تھی ، بیرون ملک ملازمت کے نام پر فراڈ عام تھے، اس لیے خدشات کو ان دیکھا نہیں کیا جا سکتا تھا۔
خدا خدا کر کے دو ماہ بعد ایجنٹ کی کال آئی، تیاری پکڑ لیں، اگلے ہفتے آپ کی فلائٹ ہے۔ یہ خبر سن کر جان میں جان آئی، فوراً تیاری شروع کردی اور ہاں آخری دن دفتر کو اپنا استعفا بھی بھیج دیا۔
ریاض کی فلائٹ سے ایک روز پہلے دوستوں، عزیزوں کو بھی خبر کردی اور جیسا کہ دنیا کا چلن ہے، کوئی جل گیا کسی نے دعا دی۔ رات میں کپڑوں اور ضروری اشیا ءکا بیگ تیار کیا، سونے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ ایکسائٹمنٹ کی وجہ سے نیند آنکھوں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ فلائٹ صبح دس بجے کی تھی ،ہم صبح چھ بجے ہی ایئرپورٹ کے لیے نکل گئے۔ نکلے بھی ایسے کہ ہمارے جاوید بھائی موٹر سائیکل چلا رہے تھے اور ہم بیگ سنبھال کر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ایئر پورٹ پرایک مخصوص جگہ پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی ،جہاں ہمارے علاوہ پانچ دیگر افراد بھی موجود تھے۔ ان لوگوں نے بھی ہمارے ساتھ اسی کمپنی میں ملازمت کے لیے جانا تھا، یہاں ایجنٹ کے نمائندے نے ہم لوگوں کو پاسپورٹ اور ٹکٹ فراہم کیے اور ہم گروپ کی صورت ایئرپورٹ میں داخل ہوگئے۔ بورڈنگ اور ایمی گریشن سے فارغ ہو کر لاﺅنج میں جا کر بیٹھ گئے۔ دو گھنٹے کے اس انتظار میں آنے والے دور کے خوش کن تصورات ذہن پر چھائے ہوئے تھے، لیکن نئے ملک اور نئے حالات کی فکر بھی کھائے جا رہی تھی۔ گروپ کے سب ہی لو گ خاموش بیٹھے تھے ،سب کے ذہن آنے والے دنوں کے اپنے اپنے طریقے سے حساب کتاب میں مصروف تھے۔ ڈیپارچر لاﺅنج میں بیٹھے دو گھنٹے کیسے گزر گئے پتا بھی نہیں چلا، خیالات کا سلسلہ فلائٹ کی اناﺅنسمنٹ سے ٹوٹا۔ سب لوگ بورڈنگ کے لیے گیٹ کی جانب بڑھنے لگے ،پہلے افراتفری کے بعد لوگوں کو مجبوراً قطار بنانی پڑی، ہم بھی قطار کے آخر میں کھڑے ہوگئے ۔یہ اطمینان بہرحال تھا کہ جہاز ہم میں سے کسی کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ اس لیے قطار کے آخر میں کھڑے ہونے میں ہی عافیت نظر آئی۔ کچھ دیر بعد ہم جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ چکے تھے۔جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا پھر ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ فضاءمیں بلند ہوگیا۔ (جاری ہے )