میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انگور کھٹے!!

انگور کھٹے!!

ویب ڈیسک
هفته, ۳۱ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

رات تعمیر کرنے والے اکثر اندھے پن کے شکار ہوتے ہیں۔ صبح دم بھی اُن کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ بس وہ ایک عبرت ناک سبق کے طور پر تاریخ کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ ماہر طبیعات ابن الہشیم نے کتاب المناظر میں سائنس کا کوئی اُصول بیان کیا ہوگا، جب کہا: آنکھ روشنی کو نہیں دیکھتی؛ بلکہ روشنی آنکھ کو دیکھتی ہے”۔ یہ تو دائم یاد رہنے والے ناول کے فقرے سے بھی کہیں بڑھ کر ہے، جو سچائی کوزہ بند کرتا ہے۔ عدل کی بارگاہ میں انصاف کی روشنی آنکھوں کو تلاش کر رہی تھی۔ مگروہ آنکھیں کسی نظریۂ ضرورت کی دوشیزہ پر فدا نکلیں۔ عدالت نے دوسو کے مقدمے میں غصب ِاقتدار کواُس بازار کی مخلوق کے فریفتہ کرنے والے حُسن کی طرح دیکھا تھا، تب ہی تو جسٹس منیر کا انداز بھی شاعرانہ تھا:
”جب ایوانِ عدل کے شاندار پھاٹک سے سیاست اندر آتی ہے، توا یوان کی چہیتی مکین جمہوریت چور دروازے
سے باہر کھسک جاتی ہے”۔
ایک غزل میں جتنی بھی ”بے حیائی” برتی جا سکتی ہے وہ قلم میں سیاہی کے ساتھ بھر لی گئی تھی جب اقتدار پر قبضے کو جائز اور طاقت کو واجب قرار دیتے ہوئے فیصلے میں لکھا گیا: انقلاب کامیاب ہو کر اپنے آپ کو موثر ثابت کردیتا ہے، اس طرح وہ قانون سازی کا اختیار حاصل کرکے ایک ناقابل تردید حقیقت بن جاتا ہے”۔
جسٹس منیر کی روح سپریم کورٹ میں ہمیشہ منڈلاتی رہی ہے، جسٹس ارشاد حسن خان نے جب سید ظفر علی شاہ کیس میں فیصلہ سنایا تو نظریہ ضرورت کی دوشیزہ ایک بار پھر اپنی چھب دکھلانے لگی۔ پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے ناجائز اقتدار کو جنرل پرویز مشرف سے بیاہتے ہوئے ”بن مانگے” ہی آئین میں ترمیم کے اختیار کا جہیز بھی دے دیا۔ پھر بھی جسٹس ارشاد حسن خان میں کہیں کوئی شرف باقی تھا۔ آدمی حد کرے تو بے حد تو نہ کرے۔ آخر کہیں تو رکنا ہوتا ہے۔ فوجی آمر، آئین میں ترمیم کا جہیز دینے والے چیف جسٹس سے خوش تھے۔ چنانچہ جسٹس ارشاد حسن خان کی مدتِ ملازمت میں چند ہفتے رہ گئے تو ہر آمر کی بے ساکھی رہنے والے آئین کے جادوگر شریف الدین پیرزادہ اُن کے پاس تشریف لے گئے اور پیشکش کی کہ حکومت آپ کو دو سال کی توسیع دینا چاہتی ہے۔ اگر پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی اپنی کتاب ”ارشاد نامہ” کو درست مانا جائے تو اُنہوں نے”ایک لحظہ توقف کیے بغیر اسی وقت اُن سے کہا: مجھے یہ منظور نہیں”۔ جسٹس ارشاد حسن خان 26 جنوری 2000ء کو چیف جسٹس بنائے گئے اوریوں 6 جنوری 2002 کو ایک سال 345 دن کا عرصہ گزار کر رخصت ہو گئے۔ بظاہر چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت میں توسیع کوئی اتنی مشکل نہیں تھی۔ پرویز مشرف کا طوطی بول رہا تھا۔ اور حکومت خود ایک ایسے چیف جسٹس کو توسیع دینا چاہتی تھی جس نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر ایک ناجائز حکومت کو جائز قرار دیتے ہوئے آئین کی اڈھیڑ بُن کا اختیار تک دے دیا تھا۔ مگر چیف جسٹس ارشاد حسن خان یہاں رک گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پراعتراضات کم نہیں۔ وہ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس ارشاد حسن خان تک اور پھر بعد کے چیف جسٹس صاحبان پر اُٹھنے والے تمام اعتراضات سے بڑھ کر طوفان کی زد میں ہے۔ اُن کے مقام کا تعین کرتے ہوئے یہ تمام چیف جسٹس صاحبان شاید مورخ کو غنیمت لگیں۔ آخر ارشاد حسن خان کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ اُٹھا تو اُنہوں نے صریح انکار کیا۔ مگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ماضی کے تمام جج صاحبان سے زیادہ تبصرے اور ریمارکس کی تاریخ رکھنے کے باوجود ایسے کسی واضح انکار کے ساتھ سامنے نہیں آئے۔ چیف جسٹس ارشاد حسن کا معاملہ ایک طرف رکھیں، جسٹس شیخ ریاض احمد جب چیف جسٹس بنائے گئے تو اُن کے دور میں حکومت نے تین سال کی توسیع کر دی تھی۔ مگر وہ ایک سال ختم ہونے سے پہلے ہی رضاکارانہ ریٹا ئر ہو گئے۔ یہاں تین سال توسیع کے کھلے چرچے ہیں۔ مگر کسی نوع کے انکار کی کوئی بھنک ہی نہیں۔ حکومت بظاہر ایک جوڈیشل پیکیج کے ذریعے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اور 27 اگست کا قومی اسمبلی کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے حیلے سے جمعہ تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔ پھر جمعہ کا اجلاس بھی پیر تک ملتوی کردیا گیا ہے، مگر یہ کوئی حتمی مرحلہ نہیں کہ تسلیم کر لیا جائے کہ اب چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت کا منصوبہ عملاً ختم ہو گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اب سپریم کورٹ میں چھ نئے ججز کے اضافے کی تازہ مہم شروع کر دی گئی ہے۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت نے عملاً نئے چیف جسٹس کے طور پر جسٹس منصور علی شاہ کو تسلیم کر لیا ہے اور اب حکمت عملی کے طور پر سپریم کورٹ میں ہم خیال ججز کی تعداد میں اضافہ ہی ایک آخری چارہ کار رہ گیا ہے۔ تاکہ نئے چیف جسٹس کی راہ میں ابھی سے رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں۔ مگر شریف خاندان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو نواز شریف نے 1997ء میں سپریم کورٹ پر حملہ ہی نہیں کیا تھا، بلکہ سپریم کورٹ میں دو چیف جسٹس اور عدالت نمبر ایک کی تختیاں دو کمروں پر آویزاں کرا دی تھیں۔ ایک کمرۂ عدالت کے فیصلے پر دوسرا کمرہ ٔعدالت حکم امتناع جاری کرتا تھا اور دوسرا پہلے کمرہ ٔعدالت کے فیصلے پر۔ عدالتی اہلکار دودو منٹ میں جاری ہونے والے احکاماتِ امتناعی کو ہاتھوں میں لیے سپریم کورٹ کی راہداریوں میں دوڑتے نظر آتے تھے۔ بقول شاعر
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
ابھی نظر انداز نہ کریں،رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کا بل ایجنڈے پر ہے۔ ابھی صرف اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا ہے۔ مگر ایجنڈے پر جو کچھ تھا، وہ حیرت انگیز ہے۔ سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم زیر غور تھی، جس میں کسی بھی سرکاری ملازم کی مدتِ ملازمت کو تین سال کا اضافہ ملنا تھا۔ ظاہر ہے یہ صرف چیف جسٹس کی مدت ِملازمت میں توسیع کی کڑوی گولی کو ہضم کرانے کے لیے پہلے سے ہی معاشی گرداب کے شکار ملک میں تمام سرکاری ملازمین کو ایک ”رشوت” دی جا رہی تھی۔ یہ سپریم کورٹ کے باقی ججز کے لیے بھی قابل قبول بنانے کا ایک حیلہ تھا۔ مگر ججز اسکول کے بچے تو نہیں ہوتے۔ اب یہ کوئی انکشاف نہیں رہا کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان نے موجودہ چیف جسٹس کے بعد جب اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ سے ملاقات کی تو یہ پیشکش قبول نہیں کی گئی۔ موجودہ حکومت کے لیے مشکل تھی کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدتِ ملازمت بڑھانے کی کوشش یا سازش میں عدالت عظمیٰ کے باقی منصفیں کی مخالفت میں مزید شدت کا خطرہ پیدا ہو جاتا۔ مگر ایجنڈے پر موجود ترامیم پر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ سے متعلق ہر خطرے کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ایجنڈے میں جن دفعات کو آئینی ترامیم کے لیے نشانے پر لیا گیا اُن میں آئین کی دفعہ51(خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستیں)،59(سینیٹ ارکان کی تعداد)،106(صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں)،184(عدالت عظمیٰ کا حکومتوں کے تنازع میں اختیارِ سماعت)اور208(عدالت عظمیٰ، تقرریاں اور شرائط ملازمت) شامل تھیں۔ ابھی تو انگور کھٹے لگنے کے اشارے ہیں۔ مگر نون لیگ کی عدالتوں کو اڈھیڑنے کی ایک سنگین تاریخ بھی ہے۔ حکومت کے عزائم سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 کرنے کی تجویز سے واضح ہیں۔ یعنی ترکش کے سارے تیر آزمائے جائیں گے۔ رات تعمیر کرنے والے اندھے پن کا شکار ہوتے ہی ہیں۔ روشنی تلاش میں ہوتی ہیں مگر وہ آنکھیں مل نہیں پاتیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منیر کی طرح انداز شاعرانہ تو اختیار کر سکیں گے مگر اپنے بے پناہ ریمارکس کی متواتر مشق کے باوجود تاریخ کے فیصلے سے بچ نہ سکیں گے۔ وہی روشنی کی تلاش اور وہی آنکھوں کی گمشدگی!!واہ ابن الہشیم۔۔ واہ!!


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں