میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محکمہ صحت کی غفلت سے نیاالمیہ جنم لینے لگا

محکمہ صحت کی غفلت سے نیاالمیہ جنم لینے لگا

ویب ڈیسک
بدھ, ۳۱ اگست ۲۰۲۲

شیئر کریں

سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑے
سینکڑوں
بچے متاثر
پینے کے پانی اور خوراک تک محدود رسائی والے زیادہ تر علاقے پانی سے ہونے والے انفیکشن کی لپیٹ میں ہیں،بھوک اموات الگ ہورہی ہیں
شدیداسہال، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور جلد کی بیماریاں متاثرہ اضلاع میں تیزی سے پھیل رہی ہیں،فلاحی اداروں کی جانب سے لگائے گئے کیمپ ناکافی ہیں
کراچی (اسٹاف رپورٹر)صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال کو ‘انتہائی نازک’ قرار دیتے ہوئے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے سینئر ماہرین صحت نے کہا ہے کہ پینے کے پانی اور خوراک تک محدود رسائی والے زیادہ تر علاقے پانی سے ہونے والے انفیکشن کی لپیٹ میں ہیں جن میں شدید اسہال، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور جلد کی بیماریاں شامل ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ماہرین نے یاد دلایا کہ سندھ میں رواں سال مارچ سے ڈائریا کے انفیکشن میں اضافہ ہو رہا ہے اور تباہ کن بارشوں نے صحت کے چیلنجز کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔صوبائی محکمہ صحت کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ میں صرف اگست میں بچوں میں اسہال اور پیچش کے ایک لاکھ 93 ہزار 48 کیسز رپورٹ ہوئے جو اس سال اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے جبکہ جولائی میں کل ایک لاکھ 17 ہزار 9 سو 99 کیسز سامنے آئے۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ چیپٹر کے سربراہ ڈاکٹر عثمان مکو نے کہا کہ حکومت کی امدادی کوششیں چشم پوشی کے سوا کچھ نہیں ہیں اور زیادہ تر لوگوں کی اب بھی پینے کے صاف پانی اور خوراک تک رسائی نہیں ہے اگر انہیں فوری امداد فراہم نہ کی گئی تو وہ بھوک اور بیماری سے مر جائیں گے۔ڈاکٹر عثمان مکو اپنے آبائی شہر میں سیلاب آنے سے پہلے سکھر سے اپنے خاندان کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان سمیت کئی لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ہیں ،دیگر مقامات پر 2 سے 3 فٹ پانی کھڑا ہے۔انہوںنے کہاکہ پناہ لینے کے لیے شاید ہی کوئی خشک جگہ ہو، لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ پانی کیسے نکالا جائے، گیسٹرو اینٹرائٹس جیسی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، جو آبادی خصوصاً بچوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ تباہی بڑے پیمانے پر تھی اور چند این جی اوز کام کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتیں، صرف حکومت اور فوج ہی سیلاب کے پانی سے منقطع ہوجانے والے علاقوں تک پہنچ سکتی ہے۔پی ایم اے کراچی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے صورتحال کو ‘انتہائی خطرناک’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی امداد دور دراز علاقوں تک نہیں پہنچی۔انہوںنے کہاکہ ہماری ٹیمیں کئی اضلاع میں کام کر رہی ہیں اور وہ ہمیں بتا رہی ہیں کہ سیلاب زدہ سڑکوں سے دور علاقوں میں بہت سے لوگ امداد کے منتظر ہیں، یہ علاقے گیسٹرو اینٹرائٹس سمیت متعدد بیماریوں کے پھیلاؤ کی لپیٹ میں ہے۔پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے ڈاکٹر عبداللہ متقی نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں حالات انتہائی خراب ہیں اور مزید خراب ہو سکتے ہیں۔انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں میں فوری طبی علاج اور بیماریوں سے بچاؤ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بخار عام ہے اور ہم ڈینگی یا ملیریا کا امکان مسترد نہیں کرسکتے، ہماری ٹیموں کے سامنے سانپ کے کاٹنے کے بھی کئی کیسز سامنے آئے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں