الہامی کتب میں آمد رسول اکرمۖ کا تذکرہ
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
آج سے تقریبا 4000 سال پہلے یعنی 2000 قبل مسیح میںسیدنا ابراہیم خلیل اللہ نے آمدِ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی جسے قرآن نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 129 میں بیان فرما کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔اے ہمارے رب ! اور بھیج اِن میں سے رسول انہی میں جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں پاکیزہ کردے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔پیغمبر اسلام محمدۖ بن عبد اللہ تاریخ انسانیت کی وہ واحد ہستی ہیں جن کا ذکر دنیا کی تمام بڑے مذاہب کی کتابوں میں کیا گیا ہے۔ آپ کا ذکر یہودیت، مسیحیت، ہندو مت، بدھ مت اور زرتشتیت (پارسی مت) وغیرہ کی مقدس کتابوں میں کیا گیا ہیں۔
بھارت میں شائع ہونے والی کتاب ”کالکی اوتار” نے دنیا بھر ہلچل مچا دی ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں جس "کالکی اوتار” کا تذکرہ ملتا ہے، وہ آخری رسول محمد ۖ بن عبداللہ ہی ہیں۔اس کتاب کے مصنف "پنڈت وید پرکاش” برہمن ہندو ہیں اور وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وہ سنسکرت زبان کے ماھر اور معروف محقق اسکالر ہیں۔پنڈت وید پرکاش نے کالکی اوتار کی بابت اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور ومعروف محقق پنڈتوں کے سامنے پیش کیا تھا، جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں۔ ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد تسلیم کیا ہے کہ کتاب میں پیش کیے گئے حوالہ جات مستند اور درست ہیں۔برہمن پنڈت وید پرکاش نے اپنی اس تحقیق کا نام ”کالکی اوتار” یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔ پنڈت وید پرکاش گہری تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس کالکی اوتار سے مراد حضرت محمد ۖہیں، جو مکہ میں پیدا ہوئے۔اپنے اس دعوے کی دلیل میں پنڈت وید پرکاش نے ہندووں کی مقدس مذہبی کتاب”وید” سے مندرجہ ذیل حوالے دلیل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ ”وید” کتاب میں لکھا ہے کہ کالکی اوتار بھگوان کاآخری اوتار ہوگا، جو پوری دنیا کو راستہ دکھائے گا۔ان کلمات کا حوالہ دینے کے بعد پنڈت وید پرکاش لکھتے ہیں کہ اس پیش گوئی کا اطلاق صرف حضرت محمد ۖ کے معاملے میں درست ہو سکتا ہے۔ ”ویدوں” کی پیش گوئی کے مطابق کالکی اوتار ایک جزیرے میں پیدا ہوں گے اور یہ عرب علاقہ ہی ہے، جسے جزیرة العرب کہا جاتا ہے۔ مقدس کتاب وید میں لکھا ہے کہ ”کالکی اوتار” کے والد کا نام ”وشنو بھگت” اور والدہ کا نام ”سومانب” ہوگا۔جبکہ سنسکرت زبان میں ”وشنو” اللہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور” بھگت” کے معنی غلام اور بندے کے ہیں۔ چنانچہ عربی زبان میں ”وشنو بھگت” کا مطلب اللہ کا بندہ یعنی ”عبد اللہ” ہوا اور سنسکرت میں ”سومانب” کا مطلب "امن” ہے, جو کہ عربی زبان میں ”آمنہ” ہو گا، اور آخری رسول (صلی ا? علیہ وسلم) کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ ہی ہے۔وید کتاب میں لکھا ہے کہ ”کالکی اوتار” زیتون اور کھجور استعمال کرے گا۔ اور وہ اپنے قول وقرار میں سچا اور دیانتدار ہو گا۔ یہ دونوں پھل حضور اکرم ۖ کو مرغوب تھے۔ جبکہ آپ سچائی اور دیانتداری میں تو اس حد تک معروف تھے کہ مکہ میں محمد ۖ کے لئے صادق اور امین کے لقب استعمال کیے جاتے تھے۔ ”وید ” کے مطابق ”کالکی اوتار” اپنی سر زمین کے معزز خاندان میں سے ہوگا۔ محمد ۖ کے بارے میں سچ ثابت ہوتا ہے کہ آپ قریش کے معزز قبیلے میں سے تھے، جس کی پورے عرب میں عزت اور شام وعراق میں پہچان تھی۔
ہماری کتاب کہتی ہے کہ بھگوان ”کالکی اوتار” کو اپنے خصوصی قاصد کے ذریعے ایک غار میں پڑھائے گا۔ اس معاملے میں یہ بھی درست ہے کہ محمدۖمکہ کی وہ واحد شخصیت تھے، جنہیں اللہ تعالی نے غار حراء میں اپنے خاص فرشتے حضرت جبرائیل کے ذریعے تعلیم دی۔ ہمارے بنیادی عقیدے کے مطابق بھگوان ”کالکی اوتار” کو ایک تیز ترین گھوڑا عطا فرمائے گا، جس پر سوار ہو کر وہ زمین اور سات آسمانوں کی سیر کر آئے گا۔اور محمد صلیۖ کا ”براق پر معراج کا سفر” اس پیش گوئی کا مصداق بن کر اسے آپ کی بابت ہی درست ثابت کرتا ہے؟ نیز لکھا ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ بھگوان ”کالکی اوتار” کی بہت مدد کرے گا اور اسے بہت قوت عطا فرمائے گا۔اور ہم یہ جانتے ہیں کہ جنگ بدر میں اللہ نے محمد ۖ کی فرشتوں سے مدد فرمائی۔
ہماری ساری مذہبی کتابوں کے مطابق یہ پیش گوئی ملتی ھے کہ” کالکی اوتار” گھڑ سواری، تیز اندازی اور تلوار زنی میں ماہر ہوگاپنڈت وید پرکاش نے اس پیش گوئی پر بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ جو بڑا اہم اور قابل غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں : "گھوڑوں،تلواروں اور نیزوں کا زمانہ بہت پہلے گزر چکاہے۔اب تو ٹینک، توپ اور میزائل جیسے ہتھیار استعمال میں ہیں۔ لہذا یہ عقل مندی نہیں ہے کہ ہم اس دور جدید میں تلواروں، نیروں اور برچھیوں سے مسلح”کالکی اوتار” کا انتظار کرتے رہ جائیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مقدس کتابوں میں ”کالکی اوتار” کے واضح اشارے حضرت محمد ۖ کے بارے میں ہیں جو ان تمام حربی فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ ٹینک، توپ اور مزائل کے اس دور میں گھڑ سوار، تیغ زن اور تیر انداز کالکی اوتار کا انتظار نری حماقت ہے۔اگر آج تمام الہامی کتب اپنی اصل حالت میں موجود ہوتیں تو ان میں سب سے زیادہ آیات ہمارے آقاۖکی شان میں ملتیں۔ سب سے زیادہ شان والے نبی کی اْمت ہونے کی خوش نصیبی کے ساتھ ساتھ ہماری خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے نبی کی تعلیمات اور ان پر نازل کردہ قرآن آج بھی اصل حالت میں محفوظ ہیں۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نبی اکرم ۖ کے امتی ہیں جن کی گواہی دنیا جہاں نے دی۔ہمارا سرمایہ حیات سیرت رسولۖہونی چاہئے۔ حضور اکرمۖنے پوری کائنات کو پیغام نجات دیا۔ حضورۖ کے آنے سے دنیا سے جہالت کے اندھیرے دور ہوگئے ۔ ہمیں نبی پاکۖ کے اسوہ حسنہ کو اپنانا ہوگا۔ آپ ۖ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔