میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک افغان تعلقات اور بھارت کا منفی کردار

پاک افغان تعلقات اور بھارت کا منفی کردار

ویب ڈیسک
هفته, ۳۱ جولائی ۲۰۲۱

شیئر کریں

بھارت کامنفی کردار پاک افغان تعلقات میں مسلسل رکاوٹ ہے پاکستان کی طرف سے ایک سے زائد بار دوطرفہ تعلقات بہت بنانے کی تجاویز دی گئیں اقتصادی ،دفاعی اور سلامتی کے حوالے سے تعاون بڑھانے اوردرپیش چیلنجز کا مل کر سامنا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا لیکن کبھی مثبت جواب نہیں ملا بلکہ سرد مہری اختیار کی گئی حالانکہ مشترکہ مزہبی وثقافتی اقدارکی بناپر شمال مشرقی ہمسائے سے قابلِ رشک تعلقات ہونے چاہیے تھے لیکن یہ تعلقات عوامی سطح پر تو نظر آتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر کہیں نظر نہیں آتے البتہ روسی انخلا کے بعد طالبان کے دورِ حکومت میں مختصر عرصہ کے لیے سرحدوں پر امن قائم ہوا لیکن جلد ہی دہشت گردی کا بہانہ بنا کر امریکا نے چڑھائی کر دی اور ایک کٹھ پتلی حکومت بنا دی جسے افغان حریت پسندوں نے تسلیم کرنے کی بجائے امریکی جبروغلبے کے خلاف بھرپور مزاحمت شروع کردی جواب میں افغان صدر حامدکرزئی جیسے غیر مقبول چہروں نے اقتدار کے لیے بھارتی سازشوں کی حوصلہ افزائی کی جس سے افغانستان میں بھارت کو قدم جمانے کا موقع ملا لیکن اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کومعاشی، اقتصادی اور دفاعی حوالے سے بہت نقصان پہنچایاجس سے پاک افغان تعلقات میں تلخی بڑھی۔
پاکستان نے روس یا امریکا کی طرح سازشوں کے باوجود افغانستان کے خلاف کبھی کوئی احمقانہ قدم نہیں اُٹھایا بلکہ ثبوت اور دلائل سے بھارتی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کیا مگر حامد کرزئی جیسا شخص ہو یااب اشرف غنی کی صورت میں اغیار کا کارندہ ایوانِ صدرمیں فروکش ہو کسی نے پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی بلکہ اپنے مسائل و ناکامیوں کا ذمہ داربھی پاکستان کو قراردینے کی روش اپنائی ماضی میں بھی پشتونستان اور بلوچ تحریکوں کو شہ دی اور اب بھی اپنی سرزمین استعمال کرنے کے لیے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں امریکی سیاسی مفاہمت کرائے بغیر چلتے بنے ہیں جس سے افغان حکمران خود کو بے یارومددگار تصور کرنے لگے ہیں بھارتی قونصل خانے بند ہونے سے آمدن کے زرئع کم ہوئے ہیں لیکن لڑانے کے لیے بھارت کی طرف سے گولہ و بارود اور ہتھیار جہاز بھربھر کر بھیجے ے جارہے ہیں طرفہ تماشہ یہ کہ دوعشروں تک افغان فوج کی تربیت کے باوجود زمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہے فوجی اہلکار لڑائی کے دوران مقابلے کی بجائے راہ فراراختیار کرنے اور ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اسی بناپر افغان حکومت عملاََ کابل تک محدود ہو چکی ہے اشرف غنی اغیار کا کارندہ بننے کی بجائے اگرہمسایوں سے تعلقات بہتر بناتے اورملک میں سیاسی مفاہمت کی کوشش کرتے تو آج یوں بے یارومددگار نہ ہوتے لیکن ہنوز بھارت کے ہاتھوں کھلونا ہیںیہی پالیسی پاک افغان تعلقات بہتر ہونے میں رکاوٹ ہے ۔
پاکستان میں افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کے اغوا کی من گھڑت کہانی کو طوفان بنانے کی کوشش کی گئی مگر پاکستان نے کمال مہارت سے دویوم میں ہی سچ و جھوٹ بے نقاب کردیا گھر سے نکلنے ،ٹیکسیاں بدلنے اور قیام کرنے کی جگہوں تک کی تفصیلات جاری کر دیں پھر بھی افغان حکومت نے عجلت میں سفیر کو واپس بلانے کا احمقانہ فیصلہ کیا حالانکہ اگر تفتیش میں عدم تعاون کی بات تھی تو وزارتِ خارجہ کے ذریعے تحفظات بتانے کا آپشن موجود تھا لیکن ایسا نہیں ہواجس کا مطلب صاف شفاف تفتیش نہیں محض دبائو ڈالنا ہے پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر بھارت دبائو بڑھانا چاہتا ہے اِس سوچ میں افغان حکومت آلہ کار ہے اگر افغان حکومت کو پاکستان اتنا ہی کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے تو لگے ہاتھوں تیس لاکھ اپنے شہری بھی واپس بلا لیتے تاکہ پاکستان کی اقتصادیات اور معاشیات پر کچھ دبائو کم ہوتا لیکن افغان حکومت کی ویسے تو رٹ نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے سفیر بلاکردومقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ایک پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا جائے دوم پاکستان پر دبائو ڈال کر طالبان کو سیاسی مفاہمت کرانے پر مجبور کیا جائے حالانکہ جب طالبان کو مسلسل فتوحات مل رہی ہیں امریکا و نیٹو کی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس طاقتور افواج نکلنے پر مجبور ہیں تو طالبان کیونکر اشرف غنی کو تسلیم کرنے یا کسی کے دبائو میں آسکتے ہیں اگر حامد کرزئی سیاسی مفاہمت کی مخالفت نہ کرتے اور اب اشرف غنی حکومت بھی دوحہ معاہدے کی طے شدہ شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے قیدی طالبان کو رہا کرنے سے انکاری نہ ہوتی تو حالات یکسر مختلف ہوتے مگر حامد کرزئی کی طرح اشرف غنی بھی ہر صورت بھارت کی خوشنودی چاہتے ہیں یہی چالبازی سیاسی تصفیے کی راہ میں رکاوٹ ہے کیونکہ طالبان داخلی و خارجی دونوں حوالے سے مکمل خود مختاری چاہتے ہیں لیکن افغان حکومت مالی مدد کی بناپربھارت و امریکا کی چاکری ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔
عیاں حقیقت یہ ہے کہ افغان قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب بھارتی خفیہ ایجنسی را کا دوست ہے یہ شخص پاکستان کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کا سرپرست اور شریکِ کار بھی ہے اور پاکستان کے خلاف مغلظات بکنے کی شہرت رکھتا ہے اسی بنا پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اِس شخص سے ملنے اور بات کرنے کا بائیکاٹ کر رکھا ہے افغان حکومت میں شامل اکثر چہروں کی بدزبانی کی وجہ پاک افغان تعلقات میں سرد مہری آگئی ہیاور بھارت اِس سرد مہری کو تلخی میں بدلنے کے لیے کوشاں ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں اول پاکستان دشمنی ہے دوم افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں بھارت معاشی اور سیاسی طورپرزخم خوردہ ہے اُس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ضائع ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیںبھارت اپنی ہزیمت کاذمہ دارپاکستان کو قرار دیتا ہے اسی لیے افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کی جھوٹی کہانی کو سچ ثابت کرنے میں بھی مددگاربننے کے ساتھ سرد مہری کی فضا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے بے سروپا الزام تراشی پر آگیا ہے مقصد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بگاڑپیدا ہو ۔
پاک افغان حکومتوں میں موجود سردمہری کے ایام میں بھی دونوں ممالک کی عوام میں روابط کم نہیں ہوئے سپن بولدک پر طالبان حملوں کی وجہ سے بھاگنے والے آفیسروں سمیت چھالیس اہلاکاروں کو پاک فوج نے نہ صرف محفوظ راستہ دیا بلکہ تحائف دے کر واپس افغانستان روانہ کیالیکن اِس حسنِ سلوک کو بھی افغان حکومت جھٹلانے کی کوشش کررہی ہے رواداری اور مہمان نوازی کے باوجود افغان نائب صدر امر اللہ صالح ودیگر تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے اشرف غنی ، امر اللہ صالح ودیگر اعلیٰ عہدیداروں کی نماز عید کی ادئیگی کے دوران راکٹ فائر ہونے کی ویڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنی جس میں این ڈی ایس کے سابق سربراہ امر اللہ صالح خوفزدہ نظر آتے ہیں ویڈیو کی خفت مٹانے کے لیے بھی پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں یہ طرزِ عمل کسی طور ایک ذمہ دار ہمسائے کے شایانِ شان نہیں خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور موجودہ نائب صدر امر اللہ صالح 1971کی پاک بھارت جنگ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ٹویٹر پر طنزیہ جملے لکھتے ہیں پاک افغان تلخی میں مزیداضافے کے لیے بھارتی وزارتِ خارجہ بھی دن رات بیان بازی میں مصروف ہے لیکن افغان قیادت کیوں حماقتوں کا سلسلہ ترک کرنے سے انکاری ہے؟ چین کی مشہورکہاوت ہے کہ گھر میں لگی آگ دور کے پانی سے نہیں بجھائی جا سکتی لیکن افغان ہمسائے کو چھوڑ کردیگر ملکوں سے تعاون طلب کررہی ہے حالانکہ دراندازی کرنے والے اُن سے مخلص نہیں بلکہ ایسے ملکوںکے اپنے مفاداتی اہداف ہیں جن کا شریک کار یا آلہ کار بن کر جنگ وجدل کا
ماحول پیداکرنا افغان عوام کے لیے سود مند نہیں چین ،پاکستان،ایران ،امریکا ،روس اور ترکی سمیت کئی ممالک سے طالبان مذاکرات میں مصروف ہیں لیکن افغان حکومت کا بھارتی کردار کی موجودگی پر اصرار دونوں ممالک میں تعلقات کی ناہمواری کا باعث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں