سندھ میں نیب قوانین کے خاتمہ کا بل، باپ بیٹا آمنے سامنے
شیئر کریں
رسول بخش پلیجو اور ایاز لطیف پلیجو مدمقابل آگئے !
ایاز لطیف پلیجو کی طرف سے نیب قوانین کے خاتمے کے بل پر تنقید کے بعد رسول بخش پلیجو نے علالت کے باوجود اس کی مخالفت کی
الیاس احمد
سندھ میں قوم پرست سیاست کی بھی ایک اہمیت رہی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سیاست منفرد حیثیت رکھتی ہے اس کی متعدد وجوہات ہیں لیکن یہ بھی حقیقت رہی ہے کہ تینوں صوبوں کی قوم پرست جماعتوں پر کبھی بھارتی خفیہ ایجنسی، کبھی امریکی سی آئی اے، کبھی سوویت یونین کی کے جی بی، کبھی افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد(اب این ڈی ایس) کبھی ایران، تو کبھی برطانیاکی سرپرستی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور کبھی تو ان قوم پرست جماعتوں پر پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا آلہ کار بننے کا الزام عائد ہوتا رہا۔ اس کے اسباب بھی بہت ہیں۔
بعض قوم پرست جماعتوں نے مگر وفاق کی سیاست کی ہے اور انہوں نے کبھی بھی علیحدگی پسند ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ سندھ میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سید جلال محمود شاہ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے ڈاکٹر قادر مگسی، عوامی تحریک کے رسول بخش پلیجو، سندھ نیشنل پارٹی کے امیر بھنبھرو، قومی عوامی پارٹی کے ایاز لطیف پلیجو، جئے سندھ محاذ کے عبدالخالق جونیجو سمیت ایسے کئی سیاستدان ہیں جنہوں نے کبھی بھی سندھو دیش یا الگ ملک کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ انہوں نے ہمیشہ ملک کے آئین کے تحت حقوق کی بات کی ہے۔ ان میں ڈاکٹر قادرمگسی، رسول بخش پلیجو ، ایاز لطیف پلیجو ، عبدالخالق جونیجو اور امیر بھنبھرو ایسے سیاست دان ہیں جنہوں نے ہمیشہ ایم کیو ایم پر تنقید کی ہے۔ اور ایم کیو ایم کے بارے میں 1986 سے ہی یکساں مؤقف اختیار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ رسول بخش پلیجو ذہانت کے اعتبار سے اعلیٰ پایہ کے سیاست دان ہیں وہ کبھی عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری بھی تھے پھر خان ولی خان سے اختلافات کے باعث اے این پی سے الگ ہوئے اور ابھی تک عوامی تحریک سے وابستہ ہیں۔ مگر وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے ہیں اور ان پر ایک الزام تو آج تک لگتا ہے کہ وہ اتحاد کو برداشت نہیں کرتے اور کسی کی مقبولیت کو دل سے قبول نہیں کرتے۔ سندھ قومی اتحاد، ایم آر ڈی ، پونم، سمیت ایسے کئی اتحاد بنے مگر وہ جب بھی ختم ہوئے اس کی وجہ رسول بخش پلیجو ہی بنے۔ وہ ٹاپ کلاس کے وکیل، اعلیٰ سطح کے دانشور، ادیب، شاعر بھی ہیں مگر ان میں سب سے خراب عادت انا پرستی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے کبھی بھی دوسرے درجے یا تیسرے درجے کی سیاست کے بجائے ہمیشہ صف اول کی سیاست کی ہے اگر ان کو کسی بھی پارٹی یا اتحاد کی صدارت نہیں ملتی تو وہ کسی بھی وقت اس پارٹی اور اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔ اس رویہ سے خود اُن کے اپنے صاحبزادے بھی محفوظ نہیں رہے۔ چنانچہ اُنہوں نے پہلے تو اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کو قواعد و ضوابط کے برعکس پارٹی کا سربراہ بنایا اور اس کے لیے کئی دلائل دیے اور اپنے رہنمائوں کو قائل کیا کہ ایاز لطیف پلیجو کے سربراہ بننے سے پارٹی مضبوط ہوگی مگر کچھ عرصہ بعد روایتی انداز میں نہ صرف اپنے بیٹے کو پارٹی سے الگ کیا بلکہ قومی عوامی تحریک سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی پرانی جماعت ’’عوامی تحریک‘‘ کو بحال کر دیا اور پھر ایک طویل خط لکھ کر ایاز لطیف پلیجو پر بھرپور تنقید کی۔
ایاز لطیف پلیجو بھی باپ کی طرح وکیل، دانشور، ادیب اور شاعر ہیں۔ اچھے مقرر ہیں زیادہ تر سیاست میں وہ مزاحمت کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیاری گینگ وار کے مختلف گروپوں میں صلح کے لیے ایاز لطیف پلیجو نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ ایاز لطیف پلیجو کے احتجاج کا یہ نتیجہ نکلا کہ ایم کیو ایم کے ایک وفد نے ارباب غلام رحیم کو اپنے ساتھ لے جاکر ایاز لطیف پلیجو سے ملاقات کی ،یہ ان کی سیاسی کامیابی کا پہلا زینہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے محبت سندھ ریلی نکالی جس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں 12 افراد جاں بحق ہوئے جس میں ایک خاتون شامل تھیں۔ ایاز لطیف پلیجو نے پی پی کی حکومت کی کرپشن پر کھل کر تنقید کی اور ہمیشہ پی پی کو ناک آئوٹ کیا۔ حال ہی میں حکومت سندھ نے نیب کے قوانین ختم کرنے کا سندھ اسمبلی کا بل پاس کیا تو ایاز لطیف پلیجو نے کھل کر پی پی حکومت پر تنقید کی ۔بلاشبہ پورے ملک میں ایک بھی ایسی پارٹی نہیں جو پی پی کی صوبائی حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتی لیکن حیرت انگیز طور پر رسول بخش پلیجو نے شدید علالت کے باوجود اپنے بیٹے کی مخالفت میں بیان دیا کہ حکومت سندھ کا حق ہے کہ وہ اپنے قوانین بنائے، ضروری نہیں ہے کہ حکومت سندھ وفاقی قوانین پر مکمل عمل کرے۔