اقتدار کی رعونت نے انسانی حقوق کا گلا گھونٹ دیا
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
ایوانِ پارلیمان کی عمارت کے افتتاح کا تنازع عدالت سے نکلا تو پولیس تھانے پہنچ گیا یعنی آسمان سے گرا تو کھجور میں اٹک گیا۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ ایک معمولی سی بات پر بھی ‘سب کا ساتھ ، سب کا وکاس(ترقی) اور سب کا وشواس (بھروسہ) ‘ کا نعرہ لگانے والی حکومت حزب اختلاف کو اعتماد میں نہیں لے سکی ۔سپریم کورٹ کے وکیل سی آر جیا سکین اس معاملے کو سیاست کے گلیاروں سے نکال کر عدالت میں لے گئے اور صدر دروپدی مرمو کو نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کرنے کی ہدایت دینے کی درخواست کردی۔اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت ملک کے پہلے شہری ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 79 کے مطابق صدر بھی پارلیمنٹ کا لازمی حصہ ہے ۔ لوک سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے ان کا افتتاح میں مدعو نہ کرنے کا فیصلہ غلط ہے ۔ درخواست گزار کے مطابق ملک کا آئینی سربراہ ہونے کے ناطے وزیراعظم کی تقرری صدر ہی کرتے ہیں۔ تمام بڑے فیصلے صدر کے نام پر ہوتے ہیں۔نیز آرٹیکل 85 کے تحت پارلیمنٹ کا اجلاس صدر ہی بلاتے ہیں۔ آرٹیکل 87 کے تحت وہ دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے تمام بل صدر کی منظوری کے بعد ہی قانون بنتے ہیں۔ اس لیے نئی عمارت کا افتتاح ان وہی کے ذریعہ ہونا چاہیے ۔
مدعی سست اور گواہ چست کے اس دلچسپ معاملے کو سپریم کورٹ نے خارج کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کا موضوع نہیں ہے ۔ جسٹس جے کے مہیشوری اور جسٹس پی ایس۔ نرسمہا کی بنچ نے واضح کیا کہ اس میں عدالت کی مداخلت کاقضیہ نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے الٹا درخواست گزار سے پوچھا کیوں نہ آپ پر جرمانہ عائد کیا جائے کیونکہ اس درخواست کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ اس پر مدعی کو اپنی غلطی کا احساس کرکے مقدمہ واپس لے لیا۔ لوگوں نے سوچا کہ معاملہ نمٹ گیا لیکن نہیں، اب حزب اختلاف کے بجائے حزب اقتدار کے حامی حرکت میں آئے ۔ ان میں سے ایک نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال، کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اور دیگر کے خلاف برادریوں/گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کی نیت سے نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح کے انعقاد کے سلسلے میں صدر دروپدی مرمو کی ذات بیان کرنے کی شکایت کردی ۔ایک ایف آئی آر میں کھرگے وغیرہ کے خلاف 121،153 اے ، 505 اور 34 آئی پی سی کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ بی جے پی کی اس حرکت کو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے بھی کہا جاسکتا ہے ۔
حزب اختلاف کی بیس جماعتوں نے تو خیر افتتاحی تقریب کے بائیکاٹ کا فیصلہ کردیا مگر ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے معزول شدہ صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جنتر منتر پراحتجاج کرنے والے ملک کے مشہور پہلوانوں نے 28 مئی کو نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مہیلا مہاپنچایت منعقد کرنے کا اعلان کرکے سب کو چونکا دیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کرتے وقت آئینہ دکھانے کی یہ ایک اچھی کوشش ہے ۔ انصاف کی طلب میں ایک ماہ تک جنتر منتر پر احتجاج کرنے والے نامور پہلوان انڈیا گیٹ تک مارچ بھی کرچکے ہیں مگر اس گونگی بہری سرکار کو ان بیچاروں کی فریاد سنائی نہیں دیتی ۔ اس تناظر میں ونیش پھوگاٹ نے خواتین کی مہاپنچایت کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ یہ آواز جو اٹھی ہے اسے دور دور تک جانا چاہیے ۔ اگر آج ملک کی بیٹیوں کو انصاف مل گیا تو آنے والی نسلیں اس سے حوصلہ پائیں گی لیکن افسوس کے اس عزت و وقار کی آواز کو اقتدار کی رعونت کے آہنی جوتوں سے کچل دیا گیا۔ونیش پھوگٹ کی یہ بات بالکل درست ہے لیکن جو حکومت خاتون صدر مملکت کو خاطر میں نہیں لاتی اور ان کی توہین کر گزرتی اس سے بھلا یہ پہلوان خواتین اور عام عورت کیا توقع کرے ؟ موجودہ حکومت اپنے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ کو بچانے میں لگی ہوئی جس کے خلاف 28 اپریل کو دہلی کے کناٹ پلیس پولیس اسٹیشن میں دو ایف آئی آر درج ہیں۔ ان میں سے ایک پوسکو کے تحت نابالغ لڑکی کی شکایت ہے جبکہ دوسری ایف آئی آر دیگر پہلوانوں کے جنسی استحصال سے متعلق ہے ۔ایک ایسا ایوانِ پارلیمان جس میں برج بھوش سنگھ جیسے لوگ رونق افروز ہوں اور وزیر اعظم کی تقریر پر تالیاں پیٹیں عام لوگوں کے لیے کسی اہمیت کی حامل نہیں ہوسکتی ۔ مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن پارلیمانی عمارت کا احترام کرنے کی دہائی دے رہی ہیں جبکہ صدر مملکت سمیت انسانوں کی توہین ہورہی ہے ۔ ایوانِ پارلیمان کے افتتاح سے قبل رات میں احتجاج کرنے والے پہلوان خواتین نے بتایا کہ اگلے دن پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے سامنے مہیلا(خواتین) مہا پنچایت کو منسوخ کرنے کے لیے ان بہت دباو ڈالا جارہا ہے لیکن وہ پر امن طریقہ پر اپنا مظاہرہ کرنے پر قائم و دائم ہیں۔
اس موقع پر پہلوان بجرنگ پونیا ، ساکشی ملک اور ونیش پھوگاٹ نے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا کہ کوئی بھی طاقت انہیں اپناپر امن مارچ کرنے سے نہیں روک سکتی ۔ ونیش بھوگاٹ کے ارادے اس قدر مضبوط تھے کہ انہوں نے کہا تھا ان پر طاقت کا استعمال کیا گیا تو وہیں بیٹھ جائیں گے ۔انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ انتظامیہ نے انہیں جلوس نکالنے کی اجازت دے دی ہے ۔ ان لوگوں نے چونکہ حمایت کی اپیل کی تھی اس لیے ہریانہ، مغربی یوپی اور مشرقی راجستھان کے کئی علاقوں سے لوگ اپنی یکجہتی ظاہر کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے ۔ ونیش نے الزام لگایا کہ ان کے حامیوں کو امبالہ کے ایک گرودوارہ میں روک دیا گیا ہے ۔ وہ لوگ وہاں پر رات میں قیام کے لیے رکے تو اسے چھاونی میں تبدیل کرکے ایک معنیٰ میں قید کردیا گیا۔پہلوانوں کے حامیوں کو روکنے کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ۔ اس طرح جن لوگوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ان میں معروف کسان رہنما راکیش ٹکیت بھی شامل تھے ۔ وہ مہاپنچایت میں شرکت کی غرض سے نکلے تو انہیں کثیر تعداد میں حامیوں سمیت غازی پور سرحد پر روک دیا گیا۔ اس وقت راکیش ٹکیت نے اپنا حتجاج درج کراتے ہوئے کہا جو لوگ سرکار میں ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی( ان کا اشارہ برج بھوشن سنگھ کی جانب تھا) لیکن جب وہ دہلی جارہے ہیں تو انہیں روکا جارہا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تین بجے سہ پہر تک اسی مقام پر اپنا مظاہرہ جاری رکھیں گے ۔
دہلی کی تمام سرحدوں پر یہی ماحول تھا ۔ ہر جگہ بڑی تعداد میں حفاظتی دستے تعینات کردیئے گئے تھے اور لوگوں کو آنے سے روکا جارہا تھا۔ دہلی پولیس نے آئی ٹی او روڈ، ٹکری سرحد اور سنگھو سرحدی علاقے کے قریب رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں کیونکہ وہاں سے کھاپ پنچایت کے رہنما اور کسان احتجاجی پہلوانوں کے مارچ میں شامل ہونے والے تھے ۔ امبالا میں بھارتیہ کسان یونین کے رہنما گرنام سنگھ چارونی سمیت کئی کسان رہنماؤں کو کروکشیتر میں حراست میں لے لیا گیا۔ ونیش پھوگاٹ نے اس وقت یہ کہا تھا کہ ان کی حمایت میں آنے والوں کو ڈرایا
دھمکایا جارہا ہے ۔ ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے ۔ پولیس نے پوری دہلی کو مکمل طور پربند کردیا ہے لیکن ان کے ساتھ جو بھی ہو وہ جنگ جاری رکھیں گی ۔مہا پنچایت کریں گی ا ور نہیں ڈریں گی ۔وہ لوگ پولیس مارے تب بھی تشدد کی راہ نہیں اختیار کریں گے ۔ ونیش نے کہا تھا کہ وہ لوگ تو انصاف چاہتے ہیں مگر وہاں تو کچھ اور ہی ہورہا ہے ۔ ان کے حامیوں کو اس طرح ہراساں کیا جارہا ہے گویا برج بھوشن نہیں وہ خود مجرم ہیں۔
ونیش پھوگاٹ نے ان تمام ہم وطنوں شکریہ ادا کرنے کے بعد کہ جنھوں نے تحریک کی حمایت کی تھی یہ بھی کہا تھا کہ وہ خوف کے سائے میں ہیں۔ نہ جانے اگلے دن ان کے ساتھ کیا ہوگا ؟وہ زندہ رہیں گے یا نہیں؟خوف و دہشت کے عالم میں ونیش نے کہا تھا خود ان پر بھی کڑی نظر رکھی جارہی ہے ۔ اس مشکل صورتحال میں وہ خود نہیں جانتیں کہ مستقبل میں ان کے ساتھ کیا ہوگا اس کے باوجود وہ بولیں چاہے ہم زندہ رہیں یا نہیں لیکن مہا پنچایت تو ہوکر رہے گی۔ پریس کے اختتام پر ونیش پھوگاٹ رونے لگیں اور کہا کہ ہماری حالت بہت خراب ہے ۔ ہم بہت زیادہ خوفزدہ ہیں ۔ پورا ملک ہمارے ساتھ ہے پھر بھی ہم بچے ہیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ کل ہمارے ساتھ کیا ہونے والاہے ؟ یہ کل وہ دن تھا جب ہندوستان کے اندر ایک نئے ایوان پارلیمان کا افتتاح ہونا تھا ۔ اس دن وزیر اعظم نے خوب تماشے کیے لیکن اس کا شرمناک پہلو یہ تھا کہ پہلوانوں کے اندیشے درست ثابت ہوگئے ۔ حفاظتی اہلکاروں نے احتجاج کرنے والے پہلوانوں کو نہ صرف روکا اور مارا پیٹا بلکہ طاقت کا بیجا استعمال کرکے انھیں حراست میں لے لیا۔ ان پہلوانوں اور ان حامی کسان رہنماوں سے احتجاج کا حق چھین لیا گیا۔ دہلی کی سرحدوں پر ہزاروں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے ، لوٹین دہلی پر رکاوٹوں کی کئی پرتیں کھڑی کی گئیں تاکہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی طرف مارچ کو روکا جاسکے ۔ پہلوانوں کے احتجاجی تمبو اکھاڑ پھینکے گئے اور ظلم و جبر کا تلک لگا کر وزیر اعظم نے جمہوریت کے مندر میں نمسکار کیا۔ مودی سرکار کی اس غلیظ حرکت نے یوم آزادی کے دن بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والے قاتلوں کی رہائی کی یاد تازہ کردی اور جمہوری فسطائیت کا خونی چہرا ساری دنیا کے سامنے عیاں کردیا ۔ پہلوانوں کے حوالے سے سرکاری بے حسی پر یہ شعر صادق آتا ہے
در سے جو دار تک نہیں پہنچا،تیری سرکار تک نہیں پہنچا
شہر خاموش ہو گیا لیکن،شور سردار تک نہیں پہنچا
٭٭٭