میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومتی ترجیحات(آخری قسط)

حکومتی ترجیحات(آخری قسط)

ویب ڈیسک
بدھ, ۳۱ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

بجٹ حکومت کی ترجیحات کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ہماری حکومتی ترجیحات بہت واضح ہےں۔ تعلیم،صحت اور پاور سیکٹر کے منصوبے حکومت کی ترجیحات میں بہت نیچے ہیں، سڑکیں حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہیں، جس پر سود اور دفاع کے بعد سب سے زائد خرچ کیا جار ہا ہے۔ تعلیم کے لیے 35 ارب اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے 358 ارب روپے مختص کیے گئے ۔معاملہ بہت واضح ہے کہ تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوان باشعور ہوتا ہے اور اپنے حقوق پر پڑتے ڈاکے کو دیکھ کر سزائے احتجاج بلند کر سکتا ہے، یہ صرف حکمرانوں کا رویہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک طبقہ کی سوچ ہے کہ تعلیم کو طبقاتی نظام میں تقسیم کیا جائے۔ سیاستدان ،بیوروکریٹ ،سرمایہ دار اور وڈیرے کا نااہل بچہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرے اور تھرڈ کلاس میں گریجویشن کر کے بھی ایوانوں کا حصہ بن جاتا ہے اور غریبوں کی قسمت سے کھیلتا ہے۔ راقم کو ذاتی تجربہ ہے کہ یہ ایک سوچ ہے کہ غریب کو آگے نہ بڑھنے دیا جائے اس سوچ میں پوری ایلیٹ کلاس اپوزیشن ہو یا حکمران متحدہیں جس نے اس کلاس سے غداری کی ہے اور بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی بنائی ہے اس کو موجودہ حکمران ہویا سابقہ سب ہی غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں عوام کی تعلیم کے لیے صرف 35 ارب مختص کیے گئے ہیں تو نجی شعبہ کی یونیورسٹی کا بجٹ بھی تقریباً اتنا ہی ہے جب کہ حکومتی سطح پر چلنے والی یونیورسٹیوں کی تعداد تقریباً50 کے قریب ہے اگرچہ یونیورسٹیوں کی یہ تعداد بہت کم ہے لیکن حکومت کی ترجیحات کا اندازا اس سے بھی ہوتا ہے، ان میں سے جو یونیورسٹیاں بنائی ہیں وہ تعلیم سے زیادہ سیاسی مفادات کے لیے بنائی گئی ہیں۔ سندھ کا دوسرا بڑا شہر تاحال یونیورسٹی سے محروم ہے لیکن سکرنڈ جیسے چھوٹے سے گاؤں میں یونیورسٹی بنا دی گئی ہے ۔سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر بھی یونیورسٹی سے محروم ہے اور خیر پور میں یونیورسٹی قائم کر دی گئی ۔چوتھا بڑا شہر میرپورخاص بھی یونیورسٹی سے محروم ہے جبکہ لاڑکانہ میں جنرل کے بجائے میڈیکل یونیورسٹی بنا دی گئی ہے۔ اسی طرح سے پنجاب ،کے پی کے اور بلوچستان کے کئی بڑے شہر بھی یونیورسٹی سے محروم ہےں کہ ان شہروں میں ایلیٹ کلاس کو وہ دلچسپی نہیں ۔راقم ایک دور میں انشورنس کے کاروبار سے وابستہ رہا اور سندھ کے بڑے زمیندار جو ایک سیاسی پارٹی کے اہم عہدیدار بھی تھے اورعلاقے کی ”معزز شخصیت“ بھی ۔موصوف 11 کاٹن جننگ فیکٹریوں کے مالک تھے اور اپنی راج دھانی میں اپنے شہزادوں کی خواہش کے مطابق ایک ٹیکسٹائل مل بھی لگائی تھی لیکن وہ ٹیکسٹائل مل ایک منٹ کے لیے بھی چلائی نہیں گئی۔ راقم انشورنس کے کاروبار سے وابستہ تھا اور ٹیکسٹائل مل چلنے کی صورت میں اس کے بزنس میں مناسب اضافہ ہو سکتا تھا ایک مرتبہ جب موصوف خوشگوار موڈ میں تھے تو عرض کیا کہ حضرت جننگ فیکٹریوں کی کاٹن دوسری ٹیکسٹائل ملوں کو بیچتے ہیں اپنی ٹیکسٹائل مل میں استعمال کریں تو منافع کی شرح بڑھ سکتی ہے اور ہمارے پریمیم میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے ،موصوف کا موڈ خوشگوار تھا وڈیرانہ موڈ کے بجائے دعوت دی کہ آؤ اوطاق میںچلتے ہیں، اوطاق موصوف کی حویلی کے اندر مرکزی دروازے سے کم وبیش 3 سو گز کے فاصلے پر تھی۔ اوطاق میں پہنچے اور اپنے خاص انداز میں مرکزی دروازے پر موجود ہاری کو آواز دی، ہاری ننگے پیر وڈیرے کی خدمت میں حاضر ہوا اور سرجھکا کر احکامات سنتا رہا۔ جس میں ہتک آمیز الفاظ کی بھرمار تھی، حکم ہوا کہ واپس جاو¿ تو اس ملازم نے ایک فاصلہ الٹے پیروں طے کیا کہ گھوم کے جانا وڈیرے کو پیٹھ دینا ہو گا جو اس کلچر میں ناقابل معافی جرم ہے۔ اس کے بعد موصوف نے راقم سے کہا کہ جس دن میں نے ٹیکسٹائل مل چلا لی اس کے پانچ سال بعد یہ ہاری اس رویے کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ یہ صرف زمیندار طبقہ کی سوچ نہیں، سرمایہ دار طبقہ کی سوچ بھی ہے۔ میں یہاں ایک وضاحت کردوں کہ سرمایہ دار اور سرمایہ کار کی سوچ میں فرق ہے سرمایہ دار ی ایک سوچ کا نام اور سرمایہ کاری ایک اپروچ کا نام ہے۔ سرمایہ دار انسان کو انسان نہیں سمجھتا جبکہ سرمایہ کار انسانی عظمت کا معترف ہے ۔جس سرمایہ دار نے صنعت لگائی ہے وہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا لیکن جو سرمایہ کار صنعت لگاتا ہے وہاں انسانی عزت نفس کا احترام بھی کیاجاتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کے ادارے کی شہرت کا اصل کردار وہ گمنام محنت کش ہے جو اس کے ادارے میں اپنا خون پسینہ بہا کر معیاری پیداوار تیار کرتا ہے ۔
قوموں کی ترقی کے لیے سڑکیں اہمیت رکھتی ہیں لیکن بنیادی اہمیت تعلیم کی ہوتی ہے اس کے بعد صنعتیں ،پاور سیکٹرز اور دیگر ادارے آتے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی سڑک پر چل کر تھوڑا وقت تو زیادہ لگ سکتا ہے اور سفر بھی تکلیف دہ ہو سکتا ہے لیکن یہ تکلیف عارضی ہوتی ہے، جاہل قوم کی تکلیف دائمی ہے اور حکمران قوم کو جاہل ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ تعلیم کے بعد پاور سیکٹر بھی حکمرانوں کی ترجیح میں شامل نہیں ہے بجلی اور گیس کی کمیابی کی وجہ سے صنعتی ادارے بند ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری کا عفریت پھیل رہا ہے ۔ بھوک کے نتیجہ میں خودکشیوں میں اضافہ ہورہا ہے، بھوکے ماں باپ اولاد کو بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ بے روزگار چند دن کی خوراک کے لیے اپنے انتہائی اہم جسمانی اعضاءفروخت کرنے پر مجبور ہیں او رمایوس نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ منشیات کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس میں ایک بڑی تعداد معاشرے کے دھتکارے ہوئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھی ہے۔ وہ نشے میں پناہ تلاش کر تے ہیں اور یوں قوم اور ملک کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں موٹروے بن رہے ہیں ،کارخانے اجڑ رہے ہیں، پاور پلانٹ بند ہو رہے ہیں ،گیس کی قلت نے صنعتی ترقی کا پہیہ الٹا چلا دیاہے اور سی این جی گاڑیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ بجٹ میں کتب مہنگی ہوئی ہیں اور گاڑیاں سستی۔ موجودہ بجٹ کی واحد خوبی سگریٹوں کی قیمتوں میں اضافہ ہے دوسری جانب وزیرخزانہ فائلر اور نان فائلر کی اصطلاح میں الجھا کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ وہی امر ہے کہ نچوڑے گئے لیموں سے مزید عرق نکالنے کی کوشش کی جائے ،ٹیکس دہندگان کی تعداد میں سے اگر تنخواہ دار طبقہ کو نکال دیا جائے تو یہ تعداد ایک تہائی بھی نہیں بچے گی۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰة کی حد بچت کا چالیسواں حصہ رکھا ہے، زائد خرچ اللہ کی رحمت کا سبب ہوتا ہے لیکن اسی رب کائنات نے زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار پر بچت نہیں پیداوار کا دسواں حصہ عشر کے طور پرلازم کیا ہے اسی طرح زمینی معدنیات پرپانچواں حصہ حکومت کا حق ہوتا ہے لیکن یہاں نہ تو زمیندار عشر دینے کو تیار ہے نہ ہی زمین کا مالک خمس کی ادائیگی پر آمادہ۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ماضی قریب میں ہی ایسی مثال ملتی ہے کہ جو اسلام کے نظام زکوٰة کی حقانیت اور افادیت کو ظاہر کرتی ہے گزشتہ صدی میں 80کی دہائی کے دوران مملکت برطانیہ شدید کساد بازاری کا شکار ہو گئی تھی ،اس وقت برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر تھی، مارگریٹ تھیچر کو اپنے مضبوط اعصاب کے باعث آئرن لیڈی کہا جاتا ہے لیکن اس کساد بازاری نے آئرن لیڈی کی چوڑیاں بھی ڈھیلی کر دی تھیں، انہیں کوئی راستہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ا س صورتحال سے کیسے نکلا جائے۔ صورتحال کے تدار ک کے لیے ملک کی معروف یونیورسٹیوں کے ماہرین معاشیات پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں کمبیرج،آکسفورڈ،بریڈ فورڈ یونیورسٹیوں سمیت دیگر یونیورسٹیوں کے ماہرین معاشیات بھی شامل تھے ان ماہرین معاشیات نے طویل مطالعہ اور تحقیق کے بعد رپورٹ دی کہ اس کساد بازاری سے نکلنے کا واحد حل اسلام کا نظام زکوٰة اور سود کا بتدریج خاتمہ ہے اس وقت برطانیہ میں سود کی شرح 12 فیصد سے زائد تھی جو بتدریج کم ہوتے ہوئے 4 اور سوا چار فیصد کی شرح پر آگئی ہے اسی طرح سے آمدنی کے بجائے بچت پر ٹیکس کا تصور دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں حکومتی خزانے میںٹیکس کی وصولی میںاضافہ ہوا ہے ۔
آمدنی اور بچت پر ٹیکس میں ایک فرق ہے جس کی مثال یوں ہے کہ دو افراد جن کی آمدنیاں یکساں ہیں لیکن ان میں سے ایک کثیرالعیال ہے اور دوسرا دو میاں بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا ہے، یوں پہلی کی بچت کم اور دوسرے کی زیادہ ہے ۔لیکن موجودہ نظام میں ٹیکس دونوں کو برابر ادا کرنا ہے اگر یہ دونوں افراد ملازمت پیشہ ہوں تو مجبوری ہے لیکن اگر کاروباری طبقہ سے وابستہ ہوں تو پھر ٹیکس میں ڈنڈی مارنا آسان ہے، لیکن اگر آمدنی کے بجائے بچت پر ٹیکس ہو جیسا کہ اسلام کا نظام زکوٰة ہے تو دونوں کے لیے ادائیگی آسان ہو گی۔ پھر ٹیکس میں جبر کا ایک عنصر نظر آتا ہے لیکن زکوٰة کو رب کی رحمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے حکمران زکوٰة نافذ کرنے اور سود کے خاتمہ میں سنجیدہ نہیں کہ اس طرح سے قرضے لے کر جعلی دیوالیہ ہونا آسان نہ ہو گا یوں سود کا عذاب مسلط ہے اور جب اللہ سے جنگ جاری ہو تو پھر فتح کی امید رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں کہ نہ رب سے ابتک کوئی جیتا ہے نہ کوئی جیت سکتا ہے۔ باقی جو محترم اسحاق ڈار کی سمجھ میں آئے کرتے رہیں ۔
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں