میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہم چاند پر کب جائیں گے؟

ہم چاند پر کب جائیں گے؟

ویب ڈیسک
اتوار, ۳۱ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود

میرے کالج کے دوست عرفان مجید روفی کی فرمائش پر یہ مضمون لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جوکالج میں میرے ساتھ تھے۔ سن 1965 کی پاک بھارت جنگ بظاہر 17روز کے بعد ختم ہو گئی تھی لیکن بہت سے ماہرین کے نزدیک اس کے اثرات آج58برس بعد بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے معاشی بحران کی جڑیں جنگ میں پیوست دکھائی دیتی ہیں۔ متعددمورخین کے نزدیک 1965 کی پاک بھارت جنگ نے نہ صرف دونوں پڑوسیوں کے سیاسی و سماجی تعلقات کو بری طرح متاثر کیا بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان کے مطابق پاکستان آج جس معاشی بحران کا شکار ہے اس کی جڑیں 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پیوست ہیں۔ معروف کتاب پاکستان دی گریزن ا سٹیٹ اس موضوع کا تفصیلی احاطہ کرتی ہے۔ 1965 کی جنگ پاکستان کی بھیانک ترین غلطی تھی۔ تقسیم کے بعد بھارت کی معاشی پالیسیاں بائیں بازو سے وابستہ اقتصادی نظریات کی طرف واضح جھکاؤ رکھتی تھیں ۔روس اور امریکہ کے درمیان کشمکش عروج پرتھی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ بھارت کسی ایک بلاک میں جانے کو تیار نہیں ۔امریکہ نے پاکستان پر اپنی خصوصی نوازشات کی جس کا نمایاں ترین پہلو پاکستان کو ایک ایسی مضبوط اقتصادی طاقت بنانا تھا جس کی معاشی پالیسیاں سرمایہ دارانہ نظام پر استوار ہوں۔
امریکی پالیسی کا دوسرا پہلو خطے میں کسی مضبوط دفاعی شراکت داری کی تلاش تھی۔ نہرونے امریکی صدر آئزن ہاورکی دفاعی ساز و سامان کی پیشکش ٹھکرا دی جس کے بعد کراچی میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان 19مئی 1954کو باہمی دفاع کے بعد ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے پاکستان آرمی کو فوجی ساز و سامان فراہم کرنے اور عسکری تربیت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ پاکستان ڈیفنس پالیسی کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں پولیٹیکل سائنٹسٹ کے مطابق 1954 کے معاہدے کے بعد ابتدائی طور پر پاکستان کی مسلح افواج کے لیے 29.5ملین ڈالر کی رقم کا اعلان کیا گیا ۔ایوب خان خوش نہ تھے کہ یہ امداد بہت کم ہے بعد میں یہ بڑھا کر 171 ملین کر دی گئی جس کا دورانیہ تین برس رکھا گیا۔ امریکہ نے بھارت کو یقین دلایا تھا کہ یہ فوجی ساز و سامان اس کے خلاف استعمال نہیں ہوگا ۔1965کی جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان کو سرمایہ دارانہ معاشی طاقت بڑھانے کے منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس سے پہلے پاکستان اسی ماڈل پر رواں تھا جس پر بعد میں امریکہ کی مدد سے تائیوان جیسے ممالک نے ترقی کی۔ پاکستان ایک مثالی اقتصادی ماڈل کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ 1965کی جنگ سے پاکستان کی مثالی معاشی پرواز کو بریک لگ گئی ۔پاکستان کی چوٹی کے ماہرین معیشت نے کہا ہے کہ ملک کی تاریخ کے سنگین ترین اقتصادی بحران کی ذمہ داری کسی ایک سیاسی جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں سیاسی جماعتوں اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سمیت سب کا ہاتھ ہے۔ ملک کے نامور ماہر معیشت کہتے ہیں کہ ملک کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمہ دار طبقہ طاقتور اشرافیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر کرپشن کر کے ناجائز مراعات حاصل کر کے اور قرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کر کے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ۔ان کے مطابق یہ طبقہ ہر جگہ موجود ہے اسے بعض سیاست دانوں کا تعاون بھی حاصل ہے ۔انہیںاداروں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے۔ اس لیے آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ اشرافیہ کا یہ مافیا ٹیکس ایمنسٹی کے نام پرٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ڈالر کی ا سمگلنگ پر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی توڑ دیتا ہے۔ پاکستان کے ممتاز ماہر معاشیات کے مطابق موجودہ بحران کی زیادہ ذمہ داری ملکی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جو چار ہزار ارب کی مراعا ت لیے ہوئے ہیں۔ وہ اگردو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کی بہترین 22فیصد زرعی زمین اس وقت ایک فیصد اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس سے 950 ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔ دوسری طرف گھی چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے 450ارب روپے لے لیے جاتے ہیں۔ موجودہ بحران 22 ،23سالوں کی کہانی ہے جس میں سول اور ملٹری دونوں طرح کی حکومتیں شامل ہیں۔ ملک کو درکار ضروری معاشی اصلاحات کرنے معیشت کو دستاویزی بنانے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں سے جان چھڑانے کے لیے جتنی کوشش کی جانی چاہیے تھی وہ دیکھنے میں نہیں آئیں۔ موجودہ اقتصادی بحران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پریشان کن اور مشکل بحران ہے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کووڈ کی وبا تاریخ کے بدترین سیلاب عالمی کساد بازاری اور یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ صرف آٹھ سال کے قلیل عرصے ے میں ملکی قرضے دوگنا ہو گئے ہیں۔ پاکستان پر 126ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ یہ بحران حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔ ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے 13 ارب ڈالر درکار ہیں اور ملک کو ضروری امپورٹس کے لیے ہر ماہ پانچ چھ ارب ڈالر درکار ہیں۔ لیکن ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر سے بھی نیچے جا چکے ہیں اور اب بات یہ ہے کہ آخر پاکستان کو اس نہج پر کس نے پہنچایا ۔ہمارا بچپن کا رومانس بھارت سے مقابلہ تھا۔ کرکٹ میچ ہو یا ہاکی میچ بڑے ٹورنامنٹ میں پاکستان کی کارگردگی کو بھارتی کارکردگی کے پیمانے سے دیکھتے تھے ۔لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا خواب بھی دکھایا گیا۔ کشمیر بنے گا پاکستان جیسے نعرے سنائے گئے ۔ہمیشہ فخر ہوتا تھا کہ ہمارے وسیم وقار ان کے پرساد سے اچھے ہیں ۔اچھے ہیں ہم نے ٹنڈو لکر کی سنچریوں کا مقابلہ سعید انور کی سنچریوں سے بھی کیا اور پھر سعید انور اس دوڑ سے باہر ہوا۔ ہم نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں پر فخر کیا۔ اس کی ٹیکنالوجی بھارت سے بہتر کہتے رہے اور ہم انہیں گندے بدبودار اور خود کو پاک نیک پارسا کہتے رہے ۔ہم بھارت میں بڑھتی ریپ کی شرح پر کہتے رہے کہ جو کچھ اپنی فلموں میں دکھایا اس تہذیب تلے دب رہے ہیں ۔لیکن ہمیں کبھی نہیں سوچنے دیا گیا کہ بھارت ڈیم بہت زیادہ بنا رہا ہے ۔حتی کہ ہمارے دریاؤں پر بھی نتیجتاً ہمارے دریا سوکھے رہ گئے۔ بھارت کی ریاستوں میں بجلی فری ملنے لگی اور ہمارے ہاں یونٹ 50 روپے سے اوپر کا ہو گیا، ہمیں نہیں سوچنے دیا گیا۔ ہمیں دراصل بتایا ہی نہیں گیا کہ اصل خرابی 75 سالہ نہیں بلکہ 65 سالہ ہے۔ اصل خرابی تو 58 میں شروع ہوئی ۔اس سے پہلے تو ملک ٹھیک چل رہا تھا۔ 1958 سے پہلے تو ہمارے ملک پر ایک روپے کا بھی قرضہ نہیں تھا۔ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے جو رہی سہی کسر تھی وہ بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی نے پوری کر دی۔ ہماری صنعتی ترقی کوتباہ کرنے والی بھٹو حکومت نہیں تو کون تھا؟ ہمیں بتایا گیا تھا ہم بھارتیوں سے بہتر ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو کیا بتائیں کہ برطانیہ کا وزیراعظم اور ایک بھارتی امریکہ کی نائب صدر کیسے بن گئی؟ گوگل اور آئی ایم ایف کے اعلیٰ عہدے دار بھارتی کیوں ہیں ؟سچ تو سچ ہوتا ہے ہم تو مطمئن تھے اب ہم بچوں کو جھوٹ سنا کر کیسے مطمئن کریں ۔مگر اب بچے تو سچ جان چکے ہیں ۔وہ اب مطمئن نہیں ہوتے ۔بچے والدین سے پوچھتے ہیں کہ ہماری خلائی شٹل چاند پر کب جائے گی؟ پھر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہمارے خلائے تحقیقی ادارے کے سربراہ سائنس داںکیوں نہیں ہوتے اور واپڈا اور پی آئی اے اور تمام قومی اداروں کے سربراہ پروفیشنل کیوں نہیں ہوتے اور یہ تمام قومی ادارے نقصان میں کیوں رہتے ہیں ؟یہ سوال سننے والا باپ بے بسی سے بچے کی طرف دیکھے گا اور یہ بھی نہیں بتا پائے گا کہ بیٹا دلی کے تمام شہریوں میں بجلی پانی علاج اور بہترین تعلیم بالکل مفت ہے اور مجھے تو بجلی کے بل کی سمجھ نہیں آرہی کہ اسے کہاں سے اور کیسے جمع کراؤں ہم چاند پر کب جائیں گے یہ تمہیں کیسے بتاؤں؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں