بشام حملہ کے مجرم بے نقاب کرنے کی ضرورت
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
بشام حملہ اِس طرف اشارہ ہے کہ پاک چین تعاون ختم کرانے کی آرزومند قوتیں تمام وسائل کے ساتھ سرگرم ہیں اور سی پیک اِن کا خاص طورپر نشانہ ہے ۔دراصل دونوں ممالک میں بڑھتا تعاون انھیں ناگوار ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت سمیت کئی ایسی تنظیمیں ہیں جن کا مفاد امن نہیں بلکہ بدامنی میں ہے۔ اسی لیے باربار دونوں ممالک کے مشترکہ منصوبوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ امریکہ اوربرطانیہ کو پاک چین تعاون ناپسند ہے۔ اِس ناپسندیدگی کاوہ اظہار کرتے رہتے ہیں جبکہ بھارت ،بی ایل اے ،تحریکِ طالبان سمیت چند ایک شدت پسند گروہ اِس حوالے سے عملی طورپر بھی متحرک ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے علاقے بشام میں چینی انجینئروں کی گاڑی پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروہ یا تنظیم نے قبول نہیں کی لیکن یہ واقعہ بیرونی معاونت اور اندرونی تعاون سے ممکن لگتاہے ۔اِس دہشت گرد حملے میں پانچ چینی باشندوں سمیت ایک پاکستانی ڈرائیور جاں بحق ہو گیا۔ جس پرنہ صرف ملک میں سوگ کی کیفیت ہے بلکہ سیاسی و عسکری قیادت طیش کے عالم میں ہے ۔واقعہ کے فوری بعد سیاسی و عسکری قیادت کا چینی سفارت خانے جانا اور قیمتی جانوں کے نقصان پر افسوس کرنا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان اپنے دوست اور ہمسایہ ملک چین کے اعتماد کو بہت اہمیت دیتااوراُسے ہرقیمت پر برقراررکھنا چاہتا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے سیکورٹی اجلاس کے دوران حملہ کے مجرموں کو جلد کٹہرے میں لانے کا عزم اسی کا عکاس ہے ۔چین نے داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے قافلے پرہونے والے دہشت گردحملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی جلداور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے یقین ظاہر کیا ہے کہ پاک چین تعاون کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔ پاکستان نے چین کو حملہ آوروں اور اُن کے سہولت کاروں کو جلدکیفرِ کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پانی کی شدید کمی کے شکار پاکستان کے لیے نئے اور جلد آبی ذخائر کی تعمیر ازحدضروری ہیں تاکہ شہریوں کو پینے کے لیے میٹھاپانی مہیا اور زرعی ضروریات کے لیے فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ خیبر پختونخواہ میں داسوکے مقام پر پاکستان اور چین کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ڈیم کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ اگریہ ڈیم بروقت مکمل ہوجاتا ہے تو ملک کوسستی بجلی کے ساتھ آبپاشی کے لیے پانی کی دستیابی میں اضافہ ہو جائے گا لیکن ڈیم کی تعمیر کے کام کو متاثر کرنے کے لیے وقفے وقفے سے کارروائیاں ہو رہی ہیں ۔2021 میں بھی اسی ڈیم کے قریب چینی انجینئروں کی بس کو نشانہ بنایا گیا جس میں تیرہ افراد جان کی بازی ہار گئے ۔حملے کا ذمہ دار تحریک ِ طالبان کو ٹھہرایا گیا اور تحقیقات کے نتیجے میں مجرموں کا تعین بھی ہوا جس کے نتیجے میں دو ملزمان کو سزائے موت سنائی گئی ،یہ اسی مقام پر ہونے والا دوسرادہشت گرد حملہ ہے جو باعثِ تعجب ہے اگرپہلے حملے کے بعد حفاظتی نقائص دورکر لیے جاتے تو دوسرا واقعہ ہرگز پیش نہ آتا۔ یہ کوتاہی تسلیم کرنی چاہیے موجودہ حملے کو سیکورٹی ناکامی کہہ سکتے ہیں۔پہلے حملے کے بعد حفاظتی انتظامات سخت کرنے سے دوبارہ اتنا جانی نقصان ہرگز نہ ہوتا اب چین نے منصوبے پر جاری کام روک دیا ہے ۔جس سے امکان ہے کہ یہ اہم منصوبہ بروقت مکمل ہونے کے بجائے تاخیرکا شکارہوجائے گا۔
پاک چین دوستی میں دراڑ ڈالنے کی خواہشمند قوتیں کسی سے پوشید ہ نہیں ،بلکہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اِن کا مقصد پاکستان میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری روکنا،سیاحت کی صنعت کو نقصان پہنچانا اور چین کے ساتھ اختلافات پیداکرناہے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے انسانی جانوں سے کھیل رہی ہیں یہ بین الاقومی سٹریٹجک تبدیلیوں کے تناظر میں امن کے لیے جاری کوششوں کو سبوتاثر کرناچاہتی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان نہ صرف بدامنی کا شکار ہے بلکہ سیاسی عدمِ استحکام کے ساتھ سفارتی مشکلات کا بھی سامنا کررہا ہے ۔پاکستان اور چین کو ایک دوسرے سے دورکرنے کے لیے وسائل اور تکنیکی معاونت سے امن دشمن عناصر کی سرپرستی کرتے ہوئے اُنھیںفعال کیا جارہا ہے۔ اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے چینی سینٹرکے سامنے ایک خاتون خودکش بمبار نے خودکو اڑالیا تھا جس کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اِس حملے کی وجہ سے چین نے سی پیک کے کئی منصوبوں پر جاری کام بندکر دیا تھا جبکہ کچھ جاری منصوبوں پر افرادی قوت کم کر دی۔ بشام حملہ کی وجہ سے چین نے دوبارہ جاری منصوبوں پر کام روک دیا ہے جس سے نہ صرف منصوبے تاخیر کا شکار ہو ں گے۔ بلکہ اُن کی لاگت بڑھنے کے ساتھ افادیت بھی کم ہو نے کا امکان ہے۔ پہلے ہی پاکستان کو چین انتہائی مہنگی شرح سودپر قرضے دینے کے ساتھ اُن پررسک چارجز بھی وصول کر رہا ہے۔ ارباب ِ بست وکشاد کی ذمہ داری ہے کہ ملکی مفادات کی نگہبانی کریں اوردونوں ممالک کے جاری مشترکہ منصوبوں پر حفاظتی انتظامات مزید سخت اور بہتر بنائیں تاکہ کسی شرپسند کو مزیدشرپسندی کا موقع نہ ملے وگرنہ اور کچھ تو ملک کا شاید بھلا نہ ہوالبتہ چینی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ یقینی ہوجائے گا۔
2013سے شروع ہونے والاسی پیک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا نہایت اہم حصہ ہے۔ اِس کے ذریعے چین کی کوشش ہے کہ بحیرہ عرب تک تجارتی رسائی حاصل کی جائے تاکہ بیرونی دنیا سے بہتر تجارتی روابط قائم کر سکے لیکن ایک دہائی بعد بھی چین ابھی تک اپنے بنیادی اہداف حاصل نہیں کر سکا۔ کیونکہ چین کے تعاون سے جن منصوبوں پر کام جاری ہے، وہ دہشت گردوں کا خاص طورپر نشانہ ہیں بلوچ شدت پسندگروہ بھی اِس حوالے سے سرگرم ہیں۔ انھیں شک ہے کہ پاکستانی حکومت ہمسایہ ملک چین کے تعاون سے بلوچستان کے وسائل پر کنڑول حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ اِس تاثر کو اذہان میں راسخ کرنے کے لیے بھارتی ذرائع ابلاغ سے ہونے والے بے بنیاد پروپیگنڈاکا اہم کردار ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی تک بشام حملے کی کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی مگر بلوچ دہشت گرد گروہوں اور طالبان شدت پسندوں کو مکمل طورپربری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آجکل یہ دونوں ایک دوسرے سے قریبی تعاون کررہے ہیں۔ گوادرپورٹ پر ہونے والے حملے میں بھی ایک ایسا دہشت گرد ہلاک ہوا جو بلوچ لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا۔ پاکستان حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف پاک چین منصوبوں پر حفاظتی انتظامات بہتر بنائے بلکہ بھارتی ذرائع ابلاغ سے ہونے والی بلوچوں کی ذہن سازی کے توڑ پربھی توجہ مرکوزکرے۔
چین ایک ایسا بااعتماد ہمسایہ ہے جو اکثرمشکلات کے شکار پاکستان کو کھلے دل سے مالی مدد فراہم کرتا ہے حال ہی میں 2.4ارب ڈالر کے قرض کو دوبرس کے لیے رول اوورکر چکا ہے جس سے بیرونی ادائیگیوں کے توازن کا معاملہ مختصر مدت کے لیے ہی سہی بہتر ہوا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی مالیاتی اِداروں سے زیادہ پاکستان اب مہنگے چینی قرضوں کے جال میںجکڑتا جارہا ہے آئی ایم ایف کی گزشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق چینی حکومت اور اُس کے کمرشل بینکوں کے پاس پاکستان کے کُل بیرونی قرضوں کا تیس فیصد حصہ ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اِس رجحان کو معاشی ماہرین ملک کے لیے خطرناک اور تشویشناک قرار دیتے ہیں۔
گوادربندرگاہ ،ریل ،توانائی ،صنعتی زونزاور مواصلاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے جاری منصوبوں کی تکمیل کے بعدخدشہ ہے کہ تیس فیصد چینی قرض بڑھ کر چالیس فیصد کے لگ بھگ ہو جائے گا۔پاکستان پہلے ہی بھاری بھرکم قرضوں کے بوجھ تلے دباہوا ہے۔ مزیدقرض کا کمزور معیشت کا حامل ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔حکمرانوں کو قرضے لیتے ہوئے اِس امر کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے مہنگے قرضے لینے سے اجتناب کیا جائے جن کی مستقبل میں ادائیگی مشکل ہو جائے جس کے لیے خودانحصاری پرتوجہ دیناضروری ہے۔