دھمکی آمیز خط بھیجنے والے ملک کا نام لیا تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے، وزیراعظم
شیئر کریں
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دھمکی آمیز خط بھیجنے والے ملک کا نام بتا دیا تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے، مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو پاکستان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔خط ہمارے اپنے سفیر کی جانب سے لکھا گیا ہے، ملک کا نام نہیں بتا سکتے ،وزیراعظم ہاوس میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایم کیوایم حکومت کے پاس واپس آجائیگی، جس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ میری جگہ لینے کی کوشش کرنے والوں کوکنٹرول کیاجاسکتا ہے، ملک کو فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔اس موقع پر وزیراعظم نے سینئر صحافیوں کو دھمکی آمیز خط کے مندرجات سے آگاہ کیا اور مراسلہ نہیں دکھایا۔ عمران خان نے کہا کہ خط خفیہ دستاویزہے اسی لئے آپ لوگوں سے صرف مفہوم شیئرکیا گیا، اس کے مندرجات من وعن نہیں بتاسکتا اور نہ ہم اس ملک کانام نہیں لے سکتے ہیں جس کیاعلی حکام کی طرف سے ہمیں خط کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کانام بتانے کی صورت میں نتائج اچھے نہیں ہوں گے، خط کا پیغام باضابطہ سرکاری میٹنگ کے دوران موصول ہوا، پیغام کی زبان بہت سخت ہے اور اس میں تحریک عدم اعتماد کا متعدد بار ذکرکیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں کسی ملک کیخلاف نہیں ہوں، یوکرینی صدرنے معاملے کے حل کیلئے کردارادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ عمران خان نے کہا کہ بہت ساری چیزیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی وجہ سے نہیں بتا سکتے تاہم اسے پارلیمان میں پیش کریں گے۔ ذرائع کے مطابق خط میں وزیراعظم کے دورہ روس کا حوالہ بھی دیا گیا، خط میں بتایا گیا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو سب معاف کر دیا جائے گا۔وزیراعظم نے صحافیوں کو بتایا کہ خط میں لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، خط میں کئی بار تحریک عدم اعتماد جبکہ ملکی خارجہ پالیسی کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ صحافیوں کو بریف کیا گیا کہ خط کو عسکری قیادت کے ساتھ شیئر کیا جا چکا ہے۔وزیراعظم نے کہا قوم سے خطاب کروں گا لیکن استعفے کی بات نہیں ہوگی، ایم کیو ایم جلد واپس آجائے گی اور پھر عدم اعتماد کی بازی پلٹ جائے گی۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ خط کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق ملاقات میں اسد عمر نے دھمکی آمیز خط سے متعلق بریفنگ دی اور خط سے متعلق صرف مندرجات شیئر کیے۔خط میں جو زبان استعمال ہوئی وہ بتا بھی نہیں سکتے۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ خط پر پارلیمنٹ کو ان کیمرا بریفنگ دیں گے جبکہ یہ خط ہمارے اپنے سفیر کی جانب سے لکھا گیا ہے۔انہوں نے بتایاکہ خط سے متعلق ملک کا نام نہیں بتا سکتے، خط پر نیشنل سکیورٹی قوانین لاگو ہوتے ہیں۔خط کے حوالے سے وزیراعظم نے بتایا کہ خط میں دھمکی دی گئی ہے اور یہ ہماری سالمیت کے خلاف ہے۔وزیراعظم نے صحافیوں سے ملاقات میں خط کے جس حصے کو دھمکی آمیز قرار دیکر تشویش کا اظہار کیا وہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو سارا کچھ معاف ہوجائے گا ، اگر عمران خان رہتے ہیں کہ ہم خوش نہیں ہوں گے اور پاکستان کیلئے چیزیں مشکل ہوجائیں گی۔خیال رہے کہ صحافیوں سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے جس ملک کے پاکستانی سفیر نے خط بھیجا اس کا نام ظاہر نہیں کیا لیکن ایک ذریعے نے دعوی کیا ہے کہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفارت کار نے حکومت پاکستان کو واشنگٹن کی بے چینی سے آگاہ کیا تھا تاہم اس کمیونیکیشن میں کسی دھمکی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں 14 سینئر صحافی موجود تھے۔دھمکی آمیز خط ایک میٹنگ کے منٹس پر مشتمل ہے۔ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے عدم اعتماد میں بچنے کے کتنے فیصد چانسز ہیں؟ اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ہمارے بچنے کے 80 فیصد چانسز ہیں،خیال رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ عام سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے خط لہرایا تھا اور کہا تھاکہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی، میرے پاس خط ہے اور وہ ثبوت ہے۔ وزیراعظم کے دعوے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے خط سامنے لانے اور ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اس سے قبل وزیراعظم عمراان خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے وفاقی وزیر مونس الہٰی، بی اے پی کی وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے بھی شرکت کی۔