کیا واشنگٹن پیوٹن کی حکومت کا تختہ اُلٹ سکتاہے؟
شیئر کریں
امریکا دنیا کے ہرملک میں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں اپنی من پسنداور مرضی کی کٹھ پتلی حکومت بنوانے کی بھرپور کوشش کرتاہے۔یہ وہ سنگین الزام ہے جو اکثر و بیشتر واشنگٹن پر عائد کیا جاتارہاہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے اردگرد بسنے والے بعض افراد تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں امریکا کی مرضی کے بر خلاف حکومت سرے سے بن ہی نہیں سکتی اور جو حکم ران بھی وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے سے انکار کرتا ہے ،اُسے اقتدارسے بے دخل ہونے پر مجبور کردیا جاتاہے ۔ تواتر کے ساتھ لگنے والے اِن الزامات کے جواب میں واشنگٹن انتظامیہ کا ہمیشہ سے یہ ہی موقف رہا ہے کہ ’’ امریکی حکام دنیا کے کسی بھی ملک کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے‘‘۔
لیکن گزشتہ دنوں امریکی صدر جو بائیڈن کے ایک بیان نے برسوں پرانے امریکی موقف کی اُس وقت تردید کردی ،جب انہوں نے دورانِ تقریر ترنگ میں آکر یہ جملہ کہہ دیا کہ ’’ولادی میر پیوٹن اَب اقتدار میں نہیں رہ سکتے‘‘۔جیسے ہی عالمی ذرائع ابلاغ میں جوبائیڈن کا مذکورہ بیان نشر ہوا ،اگلے ہی لمحے اس دھمکی آمیز بیان کو ترقی پذیر ممالک کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت کے اعتراف جرم کے طور پر بطور سند قبول کرلیا گیا اور بعد ازاںسیاسی تجزیہ کاروں کے درمیان ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ کیا واقعی واشنگٹن کی جانب سے دی گئی دھمکی کے عین مطابق آنے والے ایام میںماسکو کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی حکومت کا تختہ اُلٹایا جاسکتاہے؟۔ یوں امریکی صدر جوبائیڈن کی زبان سے ادا ہونے والے ایک مختصر سے جملے سے عالمی سطح پر وائٹ ہاؤس انتظامیہ کے متعلق دنیا بھر میں یہ تاثر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ امریکادیگر ممالک میں قائم ہونے والی ناپسندیدہ حکم رانوں کا تختہ اُلٹنے میں نہ صرف ماضی میں ملوث رہا ہے بلکہ وہ اَب بھی یہ انتظامی صلاحیت رکھتا ہے کہ جب چاہے کسی بھی ملک میں اقتدار کی تبدیلی کو یقینی بناسکتاہے۔
تاہم جلد ہی وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ کو احساس ہوگیا کہ جو بائیڈن کی اِس متنازعہ فیہ تقریر کے مندرجات سے مستقبل قریب میں امریکا کو عالمی سطح پر سخت سفارتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔لہٰذا بائیڈن کے اس بیان کے عالمی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے کے کچھ دیر بعد وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اپنا ایک وضاحتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’ امریکی صدر جوبائیڈن کے کہنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے پڑوسی ممالک کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں ہونا چاہیے، جہاں تک پیوٹن کے اقتدار میں رہنے یا اقتدار میں نہ رہنے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے امریکی صدر کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔کیونکہ پیوٹن کو اقتدار سے ہٹانا کبھی بھی امریکا کا ہدف نہیں رہا ہے‘‘۔حیران کن بات یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ وضاحتی بیان کو عالمی ذرائع ابلاغ میںامریکی مداخلت کے تاثر کو زائل کرنے میں موثر ثابت نہ ہوسکا ۔
دوسری جانب ماسکو نے بھی نہ صرف وائٹ ہاؤس کی وضاحت قبول کرنے سے انکار کردیا بلکہ امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان پر اپنا سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’ولادی میر پیوٹن کے اقتدار کا فیصلہ جو بائیڈن نے نہیں کرنا بلکہ یہ روسی فیڈریشن کے عوام کی مرضی سے ہوگا‘‘۔یاد رہے کہ جوبائیڈن کا مذکورہ بیان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکا‘ ‘کی پالیسی کے یکسرخلاف ہے کیونکہ سابق امریکی صدر ٹرمپ اکثر یورپی ممالک سے امریکی اتحاد اور نیٹو اتحاد میں شمولیت پر سوالات اٹھاتے ہوئے اس بات کا اعادہ کرتے رہتے تھے کہ امریکی عوام کے وسیع تر معاشی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیئے ضروری ہے کہ امریکا دنیا بھر کے مسائل میں زبردستی اپنے آپ کو الجھانے کے بجائے سب سے پہلے امریکا کے داخلی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔نیز ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں اس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی بھرپور کوشش بھی کی اور امریکی افواج کو دنیا بھر کے جنگی محاذ وں سے نکال کر واپس امریکا ،لانے کا نعرہ بھی ٹرمپ نے ہی لگایاتھا۔
مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جوبائیڈن نے امریکا میں عہدہ صدارت کو سنبھالتے ہی ٹرمپ کی پالیسیوں کو کوڑے دان میں پھینک کر ایک بار پھر سے امریکا کو دنیا بھر میں کے معاملات میں اُلجھانا شروع کردیا ہے ۔ واضح رہے کہ یوکرین کی جنگ رُک بھی سکتی تھی ،اگر جوبائیڈن یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی کی پیٹھ پر تھپکی کے دے کر اُسے روسی افواج کے سامنے میدان جنگ میں اُترنے کی ترغیب نہ دیتے ۔ بہرحال اس وقت بھی یوکرین میں ہزاروں امریکیوں کو روسی افواج کے خلاف جنگ کے لیئے اُتارا جاچکاہے اور امریکا کی کوشش ہے کہ یوکرین کو روس کے لیئے سرد جنگ والا افغانستان بنا دیا جائے ۔ لیکن یہ امریکا کی یہ خواہش پورا ہونا فی الحال اس لیے ناممکن ہے کہ روس پر ولادی میر پیوٹن جیسا زیرک شخص حکم ران ہے ۔جو برسراقتدار آنے کے بعد اپنے ملک کو گزشتہ چند برسوں میں چار مختلف جنگیں جیت کر دے چکا ہے۔ لہٰذا ،امریکی صدر جوبائیڈن کے خیال میں یوکرین میں روسی افواج کو شکستِ فاش دینے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ کسی بھی طرح سے ولادمیر پیوٹن کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے ۔ اپنی اسی دیرینہ خواہش کا اظہار اُنہوں نے بے دھیانی میں اپنی تقریر میں کرکے واشنگٹن پر لگنے والے اس الزام کی تصدیق بھی فرمادی کہ امریکا دنیا بھر میں اپنی مرضی کی حکومتیں بنانے میں خاص دلچسپی رکھتاہے۔
کیا امریکا واقعی دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنی من پسند حکومت قائم کرنے کی قدرت و صلاحیت رکھتاہے؟۔ یہ ایک ایسا مشکل سوال ہے جس کا آج تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ بادی النظر میں یہ تو عین ممکن ہے کہ واشنگٹن اپنے غیر معمولی اثرو رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی بھی ملک میں اقتدار کے حصول کے لیے دو سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری کشمکش میں کسی ایک فریق کو دامے ،ورمے ،سخنے امداد بہم پہنچا کر اُسے اقتدار کی راہ داریوں تک پہنچانے میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں کامیاب رہے لیکن امریکا کا یہ طریقہ واردات روس میں کامیاب ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
٭٭٭٭٭٭٭