احتیاط کریں لاپرواہی نہیں
شیئر کریں
دنیا کو کوروناوائرس کی تیسری لہر کا سامنا ہے جس سے شرح اموات میں ہونے والی کمی میں دوبارہ اضافہ ہونے لگا ہے افریقہ اور برطانیا سے کورونا کی نئی آنے والی قسم تو پہلے سے بڑھ کر خطرناک ہے کیونکہ اب صرف عمر رسیدہ ہی متاثر نہیں ہورہے بلکہ بچوں اور جوانوں میں بھی اِس مرض کی تشخیص ہونے لگی ہے جس سے مرض کی خطرناکی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اِس مرض کاتریاق ہنوز سربستہ راز ہے کیونکہ کرونا وائرس تیزی سے ساخت بدل رہا ہے اِس لیے ایجا د ہونے والی ویکسین سے مکمل اور مستقل علاج نہیں ہورہااب تو ماہرین بھی کہنے لگے ہیں کہ ممکن ہے ہر برس نئی ویکسین بنانی پڑے بچائو کا واحد طریقہ ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلہ ہے ماسک سے لاپرواہی اور پُرہجوم جگہوں میں جانا مرض کو دعوت دینے کے مترادف ہے لہذاضرورت اِس امر کی ہے کہ عوام صورتحال کو عام نہ سمجھیں اورپُر ہجوم جگہوں پر جانے پرہیز کریںبلکہ تقریبات میں شامل ہونے کاسلسلہ کچھ عرصہ کے لیے ختم کردیں وبا کے پیشِ نظرگلے ملنے اور ہاتھ ملانے میں احتیاط بیماری سے بچائو میں مدد گار ہو سکتی ہے ۔
ایک طرف ساری دنیا کرونا سے متوحش ہے دوسری طرف پاکستان میں آج بھی غیر سنجیدگی ہے اِس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہی رازق ،مالک اور خالق ہے مگر اللہ نے انسان کو بے پناہ صلاحتیوں سے بھی نوازا ہے اور غوروفکر کی دعوت بھی دی ہے بیماری سے شفا بھی اللہ ہی دیتا ہے اور بچائوکی تدابیر کا بھی حکم دیا ہے ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ جب کسی علاقے میں وبا پھوٹ پڑے تو نہ اُس علاقے میں جایا جائے اور نہ ہی اُس علاقے سے نکلا جائے۔ دنیا بھر میں کورونا سے بچائو کی تدابیر پر سختی سے عمل ہورہا ہے تقریبات پر پابندیاں ہیں لیکن ہم آج بھی اِس مرض کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں اور من گھڑت افواہیں پھیلا کر بے یقینی میں اضافہ کرتے ہیں امریکا ،برطانیا،روس ،آسٹریلیا سمیت یورپی ممالک لاک ڈائون کے ذریعے مرض کے پھیلائو کو کم کررہے ہیں لیکن وطنِ عزیر کی غالب اکثریت آج بھی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے لاپرواہ ہے حالانکہ صرف احتیاطی تدابیر سے بچائو ممکن ہے مگر سچ یہ ہے کہ حکومت کی تمام تر اپیلوں اور ہدایات کو نظرانداز کیا جارہا ہے جس سے بیماری کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش ہے جن کے لیے وینٹی لیٹر اور آکسیجن دستیاب نہیں بلکہ بیڈ بھی ناکافی ہیں صرف مریضوں میں ہی اضافہ نہیں ہورہا بلکہ اموات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جس کی بنا پر کئی اضلاع میں ا سمارٹ لاک ڈائون لگانے کی نوبت آئی مگر جب تک ہر شخص احتیاط نہیں کرتا تب تک مرض پر قابو پانے یا کم رکھنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔
این سی او سی نے اموات بڑھنے اور مثبت کیسوں میں تیزی کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنے کی اپیل کی ہے حکومت نے بھی شہریوں کو احتیاط سے بچائو یقینی بنانے کی تلقین کی ہے بصورتِ دیگر مقدمات درج کرنے کے ساتھ قیدوبند کی سزائوں کے ساتھ جرمانے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ لاہور پولیس نے توماسک استعمال نہ کرنے والوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج کرنے کا آغاز کر دیا ہے پھر بھی کورونا کی تیسری لہر سے ہونے والے نقصانات کم نہیں ہورہے کیونکہ گھر سے باہرجب تک ہر شہری ماسک کا استعمال کرتا مرض کم نہیں ہوسکتا یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شہری اپنی صحت کے حوالے سے لاپرواہی کے مرتکب ہیں وہ دیگر ذمہ داریاںخاک پوراکرٰیں گے کم ازکم اپنی زات سے تو مخلص ہونا چاہیے صحت کے لیے حفاظتی تدابیرسے فرار حماقت کے سواکچھ نہیں جب ہمیں پتہ ہے کہ ملک میں پہلے ہی صحت کی ناکافی سہولتیں ہیں اور موجودوبا کی وجہ سے ہسپتالوں پر بوجھ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے پھر بھی لاپرواہی و غفلت کا مظاہرہ کرنا حماقت کے سواکچھ نہیں۔ کیا ہم لاپرواہی سے اپنا ، اپنے پیاروں کا اور ملک کا نقصان کرناچاہتے ہیں ؟اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا غیر ضروری سفر،تقریبات کاخاتمہ کرنا ہوگا۔
پاکستان کے پاس اِتنے وسائل نہیں کہ وہ ہر شہری کو علاج معالجے کی ترقیافتہ ممالک جیسی سہولتیں فراہم کر سکے ابھی تک ملک کا چینی عطیے کی صورت میں ملنے والی ویکسین پر انحصار ہے ہمارے پاس تو ہر شہری کو مفت ویکسین فراہم کرنے کے لیے فنڈز بھی نہیں عطیے میںملنے ولی ویکسین لگانے کی رفتار بھی اتنی سُست ہے کہ اگر موجودہ رفتار میںاضافہ نہیں کیا جاتا تو ہر شہری تک پہنچنے میں دہائیاں لگ سکتی ہے علاوہ ازیں لوگوں میں ویکسین کے حوالے سے الگ شکوک وشبہات ہیں غربت و بے روزگاری کی وجہ سے حکومت لاک ڈائون سے گریزاں ہے جس سے شہریوں کی صحت کوخطرہ ہے وجہ آج بھی لاکھوں لوگوں کا روزانہ کی آمدن پر انحصار ہے اگر ملک لاک ڈائون کی طرف جاتا ہے تو روزانہ کی آمدن پر انحصار کرنے والے یقینی طور پرشدید متاثر ہوں گے جنھیں ریاست کھانے فراہم نہیں کر سکتی واحد حل ذمہ دارانہ رویہ ہے حقیقت یہ ہے ک شہری کورونا کو اہمیت نہیں دیتے اورستم یہ کہ تاجر بھی معمول کے کاروبار میں وقفے پر تیار نہیں بازاروں اور سفری ٹرانسپورٹ میں بھی ماسک اور سماجی فاصلے کی پرواہ نہیں کی جاتی اسی بنا پر حکومت نے ملک میں تین ہفتوں کے لیے ٹرینیں بند کر نے کا فیصلہ کیاہے تعلیمی اِدارے پہلے ہی بند ہیں جلسے جلوسوں پر بھی پابندی ہے بغیر ماسک مسافر بٹھانے والی گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ بھی جاری ہے لیکن یہ اقدامات تب تک ناکافی ہیں جب تک عوام ساتھ نہ دے اسی لیے مکمل لاک ڈائون کی باتیں کی جانے لگی ہے بلکہ پی ایم اے نے تو بڑے شہروں میں لاک ڈائون لگانے کی تجویز بھی دے دی ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہر شہری بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی ہدایات پرلازمی عمل کرے اور اپنی زات کے ساتھ ملک کو محفوظ بنانے کے عمل میں حصہ لے ۔
عالمی وبا کورونا نے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے سیاحت اور کاروباری سرگرمیاں معطل سی ہوکر رہ گئی ہیں کلب ،ریستوران ویران ہو چکے ہیں اگر مجموعی نقصان کا تخمینہ لگایا جائے تو محتاط اندازے کے مطابق کھربوں ڈالر ہے عالمی سطح پر ایوی ایشن جیسے ایک شعبے کو ہی دیکھ لیں اِس صنعت کو ساٹھ فیصد خسارے کا سامنا ہے اور مجموعی آمدنی میں چار سے پانچ ارب ڈالر کمی ہوگئی ہے آٹھ ہزار طیارے گرائونڈ جبکہ نوے ہزار ملازمین روزگار سے ہاتھ دھو چکے ہیں مختلف کمپنیوں کے پاس کئی درجن جہاز تیار ہیں لیکن کوئی خریدار نہیں اِس لیے پیارے ہم وطنو ،سنجیدہ ہو جائیے کیونکہ غیر سنجیدگی سے صرف ہمارا ہی نہیںملک کا بھی نقصان ہوگا حماقتوں کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیں تبھی ہمارا اپنا، ہمارے پیاروں اور ملک کا بھلا ہو گا بچائو صرف احتیاط میں ہے اپنی زات ،اپنے پیاروں اور ملک کے لیے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں تاکہ آپ بھی صحت مند رہیں آپ کے پیارے بھی صحت مند رہیں اور ملک بھی صحت مند رہے غفلت ولاپرواہی سے اپنی زات کے ساتھ ،اپنے پیاروں اور ملک کا بھی نقصان ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔