میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی سیاست دانوں کے غیر مہذب رویے

امریکی سیاست دانوں کے غیر مہذب رویے

ویب ڈیسک
بدھ, ۳۱ مارچ ۲۰۲۱

شیئر کریں

مشیل کوٹل

نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو کے خلاف بدسلوکی کے الزامات کی تحقیقات جاری ہیں۔ ان کے خلاف غیر مہذب رویے کی داستانوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک ایسا اور بھی واقعہ منظر عام پر آیا ہے جسے ان کے ممکنہ سیاسی حریف ہوا دے رہے ہیں۔ اتوار کی شام ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگرس ٹام ریڈ نے‘ جو 2022ء میں اینڈریو کومو کو سیاسی میدان میں چیلنج کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے‘ یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ کانگرس کی اپنی ٹرم مکمل ہونے کے بعد ریٹائر ہونے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔ ان کی سوچ میں یہ تبدیلی محض چند دن پہلے دیکھنے میں آئی جب ایک خاتون نے ان پر چار سال قبل ایک سیاسی ٹرپ کے دوران ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ جنوری 2017ء میں جب وہ منیسوٹا میں مچھلی کے تفریحی شکار پر تھے تو اس وقت 45 سالہ کانگرس رکن ٹام ریڈ ایک بار میں نشے میں دھت ہو گئے‘ الزام کے مطابق‘ انہوں نے ایک 25 سالہ لڑکی کو چھونا شروع کر دیا۔ لڑکی اپنے پہلے تفریحی دورے پر تھی۔ ہراساں ہو کر ا س نے اپنی ساتھی کو یہ میسج کیا ’’کانگرس کا ایک رکن نشے کی حالت میں مجھے ٹچ کر رہا ہے‘‘۔ پھر اس نے ’’ہیلپ، ہیلپ‘‘ بھی لکھا۔ آخرکار اس نے دوسری جانب بیٹھے ایک شخص کو مدد اور مداخلت کے لیے کہا جس کی نشاندہی پر کانگرس کے اس رکن کو فوری طور پر اس بار سے باہر لے جایا گیا۔ لڑکی‘ جس نے بعد میں فوج میں شمولیت اختیار کر لی تھی‘ اس با ت پر تعریف کی مستحق ہے کہ اس نے اپنی یہ کہانی شیئر کرنے کی جرات کی۔ جب اس کا ٹام ریڈکے ساتھ سامنا ہوا تھا تو اس نے اپنی یہ کہانی قریبی ساتھیوںکو سنائی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا مگر اس نے فوری طور پر کوئی شکایت درج نہیں کرائی تھی۔ اس نے سب سے پہلے واشنگٹن پوسٹ کو اس واقعے کے بارے میں بتایا تھا اور اسی نے سب سے پہلے اس کا یہ الزام شائع کیا تھا۔ ’’میں خوفزدہ تھی کہ میں ایک ایسی لڑکی کے طور پر مشہور ہو جائوں گی جس کا کانگرس کے ایک رکن سے پھڈا ہوا تھا اور اس کے بعد کوئی میرے ساتھ ملنا پسند نہیں کرے گا‘‘۔ جب گزشتہ جمعے کو اس کے الزامات منظر عام پر آئے تو ٹام ریڈ نے بڑے مبہم اندازمیں لکھے گئے اپنے بیان میں کہا کہ اس کا الزام درست نہیں ہے مگر اتوار کے دن انہوں نے اپنا موقف بالکل بدل لیا۔ ٹام ریڈ اس کے الزام کی تصدیق کرتے کرتے رہ گئے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اس ٹرپ کے دوران وہ مے نوشی کے اپنی عادت کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے اور اپنے اس پاگل پن کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ میں نے جو کچھ کیا‘ یہ اس کا جواز تو نہیں ہے مگر چونکہ میں نشہ ترک کر کے اس پر مسلسل قائم بھی ہوں‘ اس لیے میں کھلے عام اپنے ماضی کے ہر فعل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور اس کے ہر طرح کے ازالے کے لیے بھی تیار ہوں۔ میں اپنی بیوی، بچوں، اس لڑکی، اپنے عزیز و اقارب اور آپ سب سے بھی دوبارہ معذرت خواہ ہوں۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ وہ مے نوشی ترک کرنے کی جدوجہد میں مصروف افراد کی ہر طرح کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگرس کے رکن کا یہ رویہ افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔

 

مسٹر ٹام ریڈ کے اس انجام پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک مرکز پسند ریپبلکن پارٹی کے رکن تھے جو 2010ء میں پہلی مرتبہ کانگرس کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ایک ا سپیشل الیکشن میں انہوں نے ڈیموکریٹ رکن ایرک ماسا کی جگہ لی تھی جنہوں نے اس بنا پر استعفیٰ دے دیا تھا کہ ایوان کی ضابطہ اخلاق کمیٹی ان کے خلاف اس الزام کی تحقیقات کر رہی تھی کہ انہوں نے اپنے ایک جونیئر مشیر کو ہراساں کیا تھا۔ اب ہم مسٹر کومو کے ا سیکنڈل کی طر ف آتے ہیں۔ ٹام ریڈ ان ابتدائی لوگوں میں شامل تھے جو گورنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پھروہ ان لوگوں کے ساتھ مل گئے جو ان کے مواخذے کا مطالبہ کر رہے تھے؛ چنانچہ نیویارک کی سیاست اب رئیلیٹی ٹی وی شو جیسا منظر پیش کر رہی ہے جس میں ایک ریپبلکن رکن اس ڈیمو کریٹ کی جگہ منتخب ہوا تھا جس پر ہراسانی کا الزام لگا تھا اور اب وہ خود بھی ہراسانی جیسے الزامات کی وجہ سے سیاسی میدان چھوڑ رہا ہے، اس طرح اس کا یہ سارا منصوبہ تلپٹ ہو گیا کہ وہ ہراسانی کے کئی الزامات کا سامنا کرنے والے ڈیمو کریٹ گورنر کی جگہ لے گا۔سمجھ گئے آپ؟منتخب حکام کے اس طرح کے افسوس ناک رویے صرف نیویارک یا صرف سیاست کا مسئلہ نہیں رہے۔ اقتدا رکے سنگھاسن پر بیٹھے ہمارے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مہذب معاشرے کے قواعد وضوابط ان پر لاگو نہیں ہوتے اور یہ کہ انہیں اپنے اردگرد موجود لوگوں کے ساتھ اپنی مرضی کا کھلواڑ کرنے کی اجازت ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں سے اس طرح کی حماقتیں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ بتدریج اپنی سیاسی منازل طے کرتے ہوئے یہ سیاستدان ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا رویہ ایک چھوٹے بادشاہ جیسا ہو جاتا ہے۔ ان کے گرد ایسے مشیر ہوتے ہیں جن کی روزی روٹی کا انحصار ان سیاستدانوں پر ہوتا ہے۔ انہیں ’’ٹی وی ووٹرز‘‘ جیسے پروگراموں میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کے ایونٹس میں بھی رپورٹرز نظر آتے ہیں۔ اقتدار اور شہرت‘ جب دونوں مل جائیں تو ایک نشے کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ اس کی وجہ سائنس میں تلاش کرنا چاہیں تو آپ کو اس کی بڑی دلکش توجیہات مل جائیں گی کہ کامیابی اور فتح کس طرح ایک سیاستدان کے ذہن پر اثر انداز ہوتی ہے۔ فتح کا احساس انسان کے دماغ کی کیمسٹری کو اس طرح تبدیل کر دیتا ہے کہ ان کے رویے میں بہت زیادہ خود غرضی اور جارحیت پسندی آ جاتی ہے۔ 2018ء میں کیمرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ا سٹڈی میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح دوسروں سے بہتر ہونے کا احساس انسانوں میں ٹیسٹو سیٹرون کی پیداوار میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان میں اپنی طاقت کے بارے میں بھی ایک احساسِ تفاخر پیدا ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی بات بھی ہمارے سیاستدانوں کے غیر اخلاقی رویے کو جواز فراہم نہیں کرتی مگر ہم ’’#MeToo‘‘ جیسی تحریک کی موجودگی میں بھی اس کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتاہے کہ ٹام ریڈ نے میچورٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان باتوں کی ذمہ داری قبول کی‘ جو کسی دوسرے انسان کے لیے تکلیف اور اذیت کا باعث بنی تھیں اور انہوں نے اپنے ماضی کے رویے پر افسوس اور شرمندگی کا اظہار کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں